قانونی طریقے سے شہریت حاصل کرنے والے اس امریکی شہری کو ،جو داعش سےاس قدر متاثر ہوا تھاکہ دہشت گرد گروپ میں شامل ہونےکے لیے اپنےبیوی بچوں کو چھوڑ کر شام چلا گیا تھا اور وہاں گروپ میں امیر کے عہدے تک پہنچ گیا تھا، اسے اپنے خلاف عائد کیے جانے والے تمام الزامات کا مجرم قرار دیا گیا ہے، جس پر اسے عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ ایک جیوری نے روسلان مراٹووچ اسینوف ، جس کی عمر اب 46 سال ہو چکی ہے، پانچ الزامات کا مجرم پایا ہے، جن میں مادی مدد کی فراہمی کی سازش، تربیت کا حصول اور فراہمی ، انصاف میں رکاوٹ ڈالنے اور دہشت گرد گروپ کو اس طرح کی معاونت کی فراہمی شامل ہے جو ایک یا دو اشخاص کی موت کا باعث بنی ہو۔
امریکی اٹارنی بریون پیس نے ایک بیان میں کہا کہ اسینوف اس دہشت گرد تنظیم کے مذموم مقاصد سے اس قدر مضبوطی سےوابستہ تھا کہ اس نے یہاں بروکلین نیویار ک میں اپنےخاندان کو چھوڑ کر شام میں دہشت گرد تنظیم کےساتھ جنگ میں شامل ہونےکے لیے ایک غیر معمولی سفر اختیار کیا ۔
پیس نے کہا کہ پکڑے جانےکے بعد بھی وہ ابھی تک داعش کے قتل و غارت پر مبنی موقف پر پوری وفاداری پر قائم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مہذب دنیا میں موت اور تباہی کی خونی مہم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اسینوف کو امریکی حمایت یافتہ شامی ڈیمو کریٹک فورسز نے مارچ 2019 میں شام میں داعش کے آخری گڑھ باغوز پر حملے کے بعد گرفتار کیا تھا ۔
اسے جولائی 2019 میں امریکہ واپس بھیج دیا گیا تھا اور اس پر فوری طور پر دہشت گرد گروپ کو مدد فراہم کرنےکا الزام عائد کر دیا گیا تھا۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق اسینوف نے جوقازقستان سےامریکہ آیا تھا، 2013 کے اواخر میں شام گیا تھا جہاں اس نے ایک نشانچی کے طور پر داعش میں شامل ہو کر لڑنا شروع کیا ۔
وہ آخر کار دہشت گرد گروپ کا ایک امیر بن گیا جس کی ذمہ داری داعش کے رنگروٹوں کے لیے تربیتی کیمپ قائم کرنے اور انہیں ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دینا تھا۔
اس نے ایف بی آئی کے لیےایک مخبر کے طور پر ربط ضبط بھی شروع کیا اور ان سے جنگی لباس میں اپنے اور داعش کے جنگجووں کے فوٹو بھیجنے کا معاوضہ مانگتا تھا ۔
امریکی عہدےداروں کاکہنا ہے کہ ان پیغامات کے علاوہ اسینوف کے خلاف کچھ شواہد ان انٹریوز پر مبنی ہیں جن میں سے کم از کم ایک دوسر ے فرد نےاسی دوران کسی وقت داعش کو مادی مدد اور وسائل فراہم کیے تھے جب اسینوف وہاں تھا ۔
داعش کے غیر ملکی جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کی وطن واپسی کی کوششوں کے باوجود امریکی عہدے داروں کا اندازہ ہے کہ شمال مشرقی شام کی عارضی جیلوں میں مریکی حمایت یافتہ ایس ڈی ایف نے 8000عراقی اور شام کےداعش جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ ا ابھی تک تقریباً 2000غیر ملکی جنگجوؤں کو پکڑکر رکھا ہوا ہے ۔
اس تعداد میں اکتوبر 2019 سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے ۔ منگل کو امریکی محکمہ دفاع کے انسپکٹر جنرل کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں شام کی جیلوں کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے حراستی مراکز زیر حراست افراد کو رکھنے کے لیے نہیں بنائے گئے تھے اور ان کی مستقل انتظامی صورت حال ناقص ہے۔
انسداد دہشت گردی سے متعلق امریکی عہدے داروں کا اندازہ ہے کہ شام کی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے مجموعی طور پر 45000 سے زیادہ غیر ملکی جنگجو شام اور عراق میں اکٹھے ہوئے تھے جن میں مغربی ملکوں کے 8000 جنگجو شامل تھے۔
(جیف سیلڈن، وی او اے نیوز)