ایک امریکی ماں جنہیں شام کے ایک حراستی مرکز سے واپس وطن لایا گیا ہے، اُن پر داعش کے دہشت گرد گروپ کی دانستہ مدد کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
خصوصی امریکی افواج نے 32 برس کی سمنتھا الحسنی کو تحفظ فراہم کیا، جن کا تعلق انڈیانا کے شہر اکہارٹ سے ہے، جب گذشتہ ماہ (جالائی 24) کو انہیں امریکہ واپس لایا گیا، تاکہ وہ غلط بیانی کے الزام کا سامنا کرنے کے لیے ایف بی آئی کے سامنے پیش ہوں۔
لیکن، جمعرات کو اُن پر نئے الزامات کا اعلان کیا گیا۔ الحسنی پر الزام ہے کہ انہوں نے دو دیگر افراد کو داعش میں شمولیت اختیار کرنے میں مادی حمایت اور مدد فراہم کی، جسے دولت اسلامیہ کا نام دیا جاتا ہے۔
فرد جرم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ الحسنی نے دو افراد کی مدد اور اعانت کی، جن کے نام محض ’فرد الف‘ اور ’فرد ب‘ بتائے گئے ہیں؛ جب کہ انہوں نے انہیں حملے کے آلات اور رقوم فراہم کیں، تاکہ داعش کے ہمراہ لڑنے میں کام آئیں‘‘۔
ایک عرصے سے الحسنی نے یہ کہہ رکھا تھا کہ 2015ء میں ترکی میں تعطیلات گزارنے کے جھانسے میں آکر اپنے شوہر موسیٰ کے ہمراہ شام اور داعش کے علاقے میں پہنچیں۔
کرد حراست کے دوران، ’فرنٹ لائن‘ اور ’بی بی سی‘ کو دیے گئے انٹرویو میں، الحسنی نے بتایا کہ ’’ہم رقعہ جا پہنچے۔ جو پہلی بات میں اُن سے کہنا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ تم دیوانے ہو، اور میں تمہیں چھوڑ رہی ہوں۔ جس پر مسکراتے ہوئے، اُنہوں نے کہا کہ بیشک۔ تم چاہو تو کوشش کر سکتی ہو، لیکن تم ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی‘‘۔
ذرائع ابلاغ کے متعدد انٹرویوز میں، اُنہوں نے داعش کے خطے میں گزارے ہوئے وقت کو آزمائش قرار دیا، جس دوران اُنہوں نے بھاگ نکلنے کی کوششیں کیں۔
اُن کے بڑے بیٹے، میتھیو 10 برس کے ہیں۔ اُنہیں داعش کے پروپیگنڈا وڈیو میں استعمال کیا گیا، جس میں وہ مغرب پر حملوں کی دھمکی دیتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ موسیٰ الحسنی داعش کے ہمراہ لڑتے ہوئے ہلاک ہوا۔ سمنتھا الحسنی نے کہا کہ وہ اور اُن کے چار بچے، جن میں سے دو شام میں پیدا ہوئے، بالآخر دو یزیدی غلام لڑکیوں کے ساتھ رقعہ سے رہا ہوئے، اور کرد حراستی کیمپ میں پھنس کر رہ گئیں۔