امریکہ میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک بڑی تعدادمیں آباد ہیں جو یہاں ایک عرصے سے اسلام اور اسلامی ثقافت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تاہم انہیں بعض اوقات شدت پسندانہ رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہاں آباد مسلمان اسلام کے حوالے سے بعض امریکیوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے منفی تاثرات کے خاتمے کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک دنیا کا منظرنامہ گذشتہ ایک دہائی میں ویسا نہیں رہا جیسا کہ اس سے قبل تھا۔ ماہرین کے نزدیک 2001 میں امریکہ پر کیے جانے والے حملوں نے دنیا بھر میں بالعموم اور امریکہ میں بالخصوص مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ کیا۔
لیکن اب امریکہ میں مسلمان ان مشکلات کو ختم کرنے کے حوالے سے متحرک ہو رہے ہیں۔ امریکی ریاست میری لینڈ میں جنوبی ایشیائی مسلمانوں کی ایک تنظیم مسلم پبلک افیئرز کونسل کی جانب سے بلایا جانے والا اجلاس اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
اجلاس میں شریک کامران میمن کا کہناتھا کہ ہمیں چند بنیادی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں امریکیوں کو یہ بتانا ہے کہ درحقیقت کیا ہورہا ہے۔ بہت سے امریکیوں کے ذہنوں میں یہ سوال موجود ہے کہ ہم مسلمان کون ہیں اور ہمارا مذہب کیا ہے؟
پاکستان سے تعلق رکھنے والی نضیرا اعظم کے نزدیک امریکیوں کو اسلام کا مثبت رخ دکھانے کے لیے میڈیا کا سہارا لیے جانے کے علاوہ امریکیوں کے ساتھ میل جول ناگزیر ہے۔ ان کا کہناتھاکہ آپ میڈیا کے ذریعے بھی جا سکتے ہیں اور ذاتی طور پر لوگوں سے جو ایک ربط ہوتا ہے اس کو تھوڑا سا بڑھائیں کیونکہ عام طور پر میں نے دیکھا ہے کہ ہماری جو پاکستانی یا جنوبی ایشیائی کمیونٹریز ہیں وہ اپنے ہی خول میں رہتے ہیں۔ وہ ابھی تک پوری طرح سے کھل کر امریکی سسٹم میں آئے نہیں ہیں۔
کالم نویس مواحد حسین کا کہنا ہے کہ امریکی مسلمانوں کو صدر اوباما کی جانب سے قاہرہ میں مسلمانوں کی طرف بڑھائے گئے دوستی کے ہاتھ کا فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت اچھا موقع ہے کہ ایک تو انکو وائٹ ہائوس میں ایسا صدر ملا ہے جو ان کے خلاف نہیں ہے، مخالف نہیں ہے۔
جبکہ مواحد حسین یہ بھی تجویز دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنا دفاعی انداز ترک کرکے امریکیوں کے ساتھ تعلقات بڑھانا ہوں گے۔ ان کا کہناتھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ میں رہنے والے ہمارے لوگ تھوڑا سا ڈر ے ہوئے ہیں۔ ان میں خوف ہے۔ وہ ابھی تک خوف اور خواہش کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ جب وہ اس سے باہر نکلیں گے تو ان کے لیے مواقع ہوں گے۔
ماہرین کے نزدیک اگلے چند سالوں میں امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد میں نہ صرف تیزی سے اضافہ ہوگا بلکہ اسلام عیسائیت کے بعد امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا۔
اس محفل میں مسلمان کمیونٹی کے بہت سے افراد موجود تھے جن کا اس پر اتفاق تھا کہ مسلمانوں کو اپنی آواز بلند کرنے کے لیے متحرک ہو کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔