مریم کبیر فائی نے 1946 میں ریاست کیلے فورنیا کے شہر ہالی وڈ میں ایک وسیع النظر یہودی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ان کے والدین مشفق و مہربان تھے لیکن انہیں مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔کبیر فائی کو اپنی زندگی میں ایک روحانی خلا محسوس ہوتا تھا ۔ 16 برس کی عمر میں انھوں نے یونیورسٹی آف کیلے فورنیا، برکلے میں داخلہ لیا ۔ یہ 1960 کی دہائی کے شروع کے سال تھے جب یہ یونیورسٹی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی ۔ اسی زمانے میں انھوں نے قرآن شریف کی تعلیمات کا مطالعہ کیا، ویدوں اور ہندو فلسفے سے آگہی حاصل کی اور تیرہویں صدی کے فلسفی شاعر، جلال الدین رومی کے کلام سے مستفید ہوئیں۔
انھوں نے دو برس بعد ہی یونیورسٹی کو خیر باد کہہ دیا اور ایک روحانی سفر پر، سچ کی تلاش میں نکل پڑیں۔ وہ کہتی ہیں’’مجھے کسی ایسے مخصوص مذہب کی تلاش نہیں تھی جس کے بارے میں پہلے سے کچھ جانتی تھی ۔ مجھے تو بس سچ کی تلاش تھی جو میری روح کو آزاد کردے، چاہے وہ کہیں سے بھی ملے۔‘‘
یہ تلاش انھیں امریکہ کے ساحلوں سے بہت دور، افریقہ، ایشیا، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں میں لے گئی ۔ لیکن کبیر فائی کہتی ہیں کہ افغانستان کے ایک بے آب و گیاہ علاقے میں بس کے سفر کے دوران انھوں نے روحانیت کا وہ منظر دیکھا جس نے ان کی دنیا بدل دی۔ وہ کہتی ہیں’’بس صحرا کے بیچوں بیچ چلی جا رہی تھی کہ اچانک اذان کی آواز گونجی ۔ یہ آواز میں نے پہلی بار سنی تھی۔ بس رک گئی ۔تمام مسافر اترے، ہر ایک کے پاس اپنی جائے نماز تھی۔ انھوں نے وہیں صحرا میں ایک ساتھ نماز پڑھی۔ میں نے یہ مسحور کن منظر پہلی بار دیکھا تھا ۔‘‘
کبیر فائی نے مسلمانوں کو دن میں پانچ بار نماز پڑھتے دیکھا ہے جب وہ اپنے تمام کام کاج چھوڑ کر، مکے کی طرف منہ کرتے ہیں اور خدا کے حضور جھک کر نماز ادا کرتے ہیں۔ نہ معلوم کتنی راتیں جاگنے اور غور کرنے میں گذارنے کے بعد بالآخر انھوں نے اسلام کا راستہ اور اسلام کے اندر، تصوف کا مسلک اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
تصوف کی تحریک منظم انداز میں پیغمبرِ اسلام کی وفات کے بعد شروع ہوئی۔ بہت سے لوگ اسے اسلام کی عارفانہ شکل سمجھتے ہیں۔کبیر فائی کہتی ہیں کہ یہ اسلامی شعائر کی باطنی یا روحانی شکل ہے جومحبت، عفو ودرگذر، شفقت، دانش اور نور سے دلوں کو منور کرتی ہے ۔ میرے لیے اسی راہ کا انتخاب ہو چکا تھا۔
کبیر فائی نے صوفیا ئے کرام سے فیض یاب ہونے کے لیے اسرائیل، سری لنکا، افریقہ میں سینیگال اور گیمبیا کا اورامریکہ میں پینسلوینیا اور ساؤتھ کیرولائنا کا سفر کیا تا کہ اسلام کی اس مخصوص شکل کو بہتر طور سے سمجھ سکیں۔
کبیر فائی کہتی ہیں’’صوفی ازم کے بارے میں مجھے جو تجربہ ہوا وہ محض کتابوں کے علم تک محدود نہیں تھا ، بلکہ میرے لیے یہ طے ہو چکا تھا کہ مجھے کئی صوفیائے کرام سے رہنمائی ملے۔ میں نے تصوف کا مطالعہ اپنے موجودہ مرشد سے شروع کیا۔ ان کا نام ہارون رشید فائی ہے اور وہ مغربی افریقہ کے ملک سینیگال کے رہنے والے ہیں۔‘‘
مریم کبیر نے اپنے نام کا آخری حصہ اپنے مرشد کے نام سے لیا ہے ۔ کبیر فائی تسلیم کرتی ہیں کہ بہت سے لوگ اسلام کو پُر تشدد مذہب سمجھتے ہیں لیکن وہ جس اسلام سے واقف ہیں اور جس دین پر کاربند ہیں وہ حسن ِ سلوک اور خدا ترسی کا مذہب ہے ۔
کبیر فائی نے بتایا’’میں ایسے بے شمار لوگوں سے ملی ہوں جو انتہائی فیاض ،مہربان، شفیق اور دردمند تھے۔ یعنی یتیموں کی خبر گیری کرنے والے، معذوروں کی دیکھ بھال کرنے والے، عورتوں کی مدد کرنے والے، اور میرے ساتھ کمال مہربانی سے پیش آنے والے ۔ میں مسلمان کیسے ہوئی؟ اسی محبت اور شفقت کی وجہ سے۔ میں اسلام دوسروں تک کیسے پہنچاؤں گی؟ اسی محبت اور شفقت کے ذریعے۔‘‘
کبیر فائی کہتی ہیں کہ جو لوگ اسلام کے نام پر تشدد میں ملوث ہوتے ہیں، وہ صحیح اسلام کو مسخ کرتے ہیں۔ ’’میں نے مطالعے سے یہ سیکھا ہے کہ اسلام میں خود کشی ممنوع ہے اور اسلام میں بے گناہ لوگوں کو ہلاک کرنا ممنوع ہے، یہاں تک کہ دفاعی جنگ میں درخت کاٹنے تک کی ممانعت ہے ۔ اسلام زندگی کی حمایت کرتا ہے ۔ اس لیے ظلم و جبر اور جارحیت ممنوع ہے جب کہ عفو و درگذر، رواداری، مہربانی اور ضرورت مندوں کی مدد کا حکم دیا گیا ہے ۔‘‘
یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والی لیکن اب صوفی مسلک پر کاربند مسلمان خاتون ، مریم کبیر فائی اپنے جوان بیٹے عیسیٰ کے ساتھ فلا ڈیلفیا میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اب جب کہ ان کا پہلا روحانی سفر مکمل ہو چکا ہے، انھوں نے ایک مصنفہ اور ٹیچر کی حیثیت سے اپنا دوسرا سفر شروع کیا ہے جس میں وہ اپنے زندگی بھر کے علم اور تجربے کو مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں تک پہنچاتی ہیں۔