امریکن مسلم لیڈرشپ انسٹی ٹیوٹ میں جو طریقے استعمال کیے جاتے ہیں ان میں جسمانی ورزش کی مشقیں اور ذاتی تجربات میں دوسروں کو شریک کرنا شامل ہے۔ ایک مقصد یہ ہے کہ نوجوان مسلمان لیڈروں کو یہ سکھایا جائے کہ مسلمانوں کے خلاف منفی خیالات کا سد باب کیسے کیا جائے۔ خرم زماں انٹرنیٹ پر اسلامی تعلیمات کی سائٹ چلانے میں مدد دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں’’میں سمجھتا ہوں کہ کمیونٹی میں یہ خیال عام ہے کہ اس پر ہر طرف سے حملے کیے جا رہے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہم لوگوں میں قیادت کا بحران ہے، ہم میں حالات کو صحیح طور سے سمجھنے کا فقدان ہے، ہم معاشرے میں زیادہ وسیع طریقے سے رابطے قائم نہیں کرتے۔ نیو یارک میں گراؤنڈ زیرو کے نزدیک مجوزہ مسجد کے تعمیر پر جو جھگڑا کھڑا ہوا، اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہمیں ابھی بہت کام کرنا ہے ۔‘‘
ان نوجوان مردوں اور عورتوں کا تعلق بہت سے مختلف پیشوں سے ہے۔ بعض مذہبی تنظیموں کے لیئے کام کرتے ہیں اور بعض کمیونٹی گروپوں میں غیر مسلموں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں ۔ ثمر احمد جس تنظیم کے لیئے کام کرتی ہیں اس کا نام ہے Ohio Alliance to End Sexual Violence ۔ وہ کہتی ہیں’’میں سمجھتی ہوں کہ مجھے بڑا منفرد موقع ملا ہے ۔ میں جنسی تشدد کے خلاف کام کرنے والی عام تحریک کو اپنی کمیونٹیوں کے نقطۂ نظر سے آگاہ کر سکتی ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد کی تحریک کے پیغامات امریکی مسلمان کمیونٹیوں تک پہنچا سکتی ہوں۔‘‘
دوسرے نوجوانوں کی طرح ، مسلمان نوجوان بھی معلومات کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ Altmuslimah.com کی ایڈیٹر عاصمہ الدین کہتی ہیں کہ ان کی ویب سائٹ میں عورتوں کے بدلتے ہوئے رول اور مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلافات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے ۔’’ہماری ویب سائٹ پر بیشتر مواد اس قسم کے اختلافات کے بارے میں ہوتا ہے، یعنی باہم تعلقات کے اہم مسائل، جنس کی شناخت اور مردوں اور عورتوں کے رول کے بارے میں ۔‘‘
امریکن مسلم سوک لیڈرشپ انسٹی ٹیوٹ پروگرام کے شرکا بہت سی مختلف نسلوں اور اسلام کی مختلف شاخوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں امریکہ میں پیدا ہونے والے امریکی بھی ہیں اور مسلمان دنیا کے تمام حصوں سے آنے والے تارکین وطن کے بچے بھی ہیں۔
میگان پٹنی امریکہ میں پیدا ہوئی تھیں اور انھوں نے یہیں اسلام قبول کیا۔ وہ کہتی ہیں’’میں نیو یارک یونیورسٹی کے اسلامک سینٹر کی پیداوار ہوں۔ میں یہ بات بڑے فخر سے کہہ سکتی ہوں۔ یہ ایک بڑی وسیع کمیونٹی ہے جس میں صرف طالب علم نہیں، بلکہ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔‘‘
کیلی فورنیا کمیونٹی کی کارکن عاصمہ مین کہتی ہیں کہ شرکا اپنے اپنے خیالات لے کر آتے ہیں اور ان کے درمیان بہت اچھا تعلق قائم ہے۔’’یہ بڑی حیران کن بات ہے ۔ یہاں ہر کوئی کھلے ذہن کے ساتھ آتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ہمارے والدین کھلے ذہن کے لوگ نہیں ہیں لیکن وہ ایک خاص ماحول کے عادی ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ چونکہ ہم یہاں پیدا ہوئے ہیں یا یہاں پلے بڑھے ہیں اس لیے ہمیں اسی معاشرے کا حصہ بننا ہے، اور یہ بات ہمارے حق میں جاتی ہے ۔‘‘
تو آپ نے کیا سیکھا. مجھے بتائیے کہ ان واقعات سے آپ کو کیا سبق ملا۔
ایک پروفیشنل ایکٹر لیڈرشپ کی ٹریننگ حاصل کرنے والے ان لوگوں کو کہانیاں سنانے کی مہارتیں سکھا رہے ہیں تا کہ وہ لوگوں کے ساتھ ذاتی سطح پر رابطے قائم کر سکیں۔
سید محی الدین ڈیٹرائٹ میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسرے امریکیوں کے ساتھ بات چیت کرنا ملک میں رہنے والے تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔’’اب یہ ہمارے لوگ ہیں اور یہیں رہتے ہیں۔ اب یہ وہ لوگ نہیں جن کے پاس تعلیم نہیں ہیں، اور یہ وہ لڑکی نہیں ہے جس کے گھرانے کے لوگ اس کی خبر گیری نہیں کر رہے ہیں۔ ہم ڈیٹرائٹ میں حالات بدلنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘
اور سید محی الدین پوچھتے ہیں کہ یہ نوجوان لیڈر امریکی مسلمانوں کے شب و روز تبدیل کرنے کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔