امریکہ کی ممتاز ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے پیر کو اسلام آباد میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور فوج کی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقات کی۔ وزیر اعظم سے ملاقات کے موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی موجود تھے۔ پاکستانی قیادت سے ملاقات میں پاکستان امریکہ تعلقات، افغان امن عمل اور خطے کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے یبان کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے سینٹر گراہم سے ملاقات میں کہا ہے کہ خطے کے امن و خوش حالی کے لیے پاکستان اور امریکہ کی وسیع اور پائیدار شراکت ضروری ہے۔
پاکستان کے لیے افغان امن و استحکام کی اہمیت کا ذکرکرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان، افغان امن کے عمل میں سہولت کار کا کردار کا کردار ادا کرتا رہے گا۔
اس موقع پر سنیٹر لنڈسے گراہم نے افغان امن عمل میں پاکستان کی حمایت پر وزیراعطم عمران خان کا شکریہ ادا کیا۔
سینٹر لنڈسے گراہم نے ایک ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کیا ہے جب افغان امن عمل کے سلسلے میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد ایک بار پھر متحرک ہیں۔
یاد رہے کہ رواں سال ستمبر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معطل ہونے والے مذاکرات کا سلسلہ ایک بار پھر بحال ہو گیا ہے، تاہم گزشتہ ہفتے افغانستان میں واقع بگرام ائیر بیس پر طالبان کے حملے کے بعد امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے دوحہ مذکرات میں وقفے کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ طرف سے طالبان پر جنگ بندی اور تشدد میں کمی پر زور دیا جا رہا ہے، تاہم طالبان ابھی تک اس پر تیار نہیں۔ ان کا موقف ہے کہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ طے پانے بعد ہی دیگر امور پر پیش رفت ہو سکتی ہے۔
جب کہ سینیٹر گراہم نے گزشتہ ہفتے امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز سے گفتگو میں کہا تھا کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ کو طالبان کی بجائے پاکستان سے بات چیت شروع کرنی چاہیے۔ ان کے بقول اگر پاکستان طالبان کے مبینہ محفوظ ٹھکانے ختم کر دے تو افغان جنگ ہفتوں میں ختم ہو سکتی ہے۔
لنڈسے گراہم نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ایسا آزادانہ تجارتی معاہدہ ہونا چاہیے جو سیکیورٹی امور پر پاکستان کی کارکردگی سے مشروط ہو۔ جس سے پاکستان اپنا طرز عمل تبدیل کرے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بعض امریکی حلقوں کا خیال ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پیش رفت پاکستان کے تعاون ہی سے ممکن ہے۔
سلامتی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی نے کہا ہے کہ واشنگٹن کے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان اب بھی طالبان پر اپنے موقف میں لچک لانے کے لیے کردار ادا کر سکتا ہے۔
تاہم ہما بقائی کے بقول پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا ہر ممکن کردار ادا کرنے پر تیار ہے لیکن ان کے بقول یہ سمجھنا کہ پاکستان کلی طور پر طالبان پر اثر انداز ہو سکتا ہے، وہ شاید درست نہیں ہے۔
ادھر بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال کے بقول امریکہ افغانستان سے اپنی فورسز کے انخلا کا خواہاں ہے، تاہم ان کے بقول طالبان ابھی تک اپنے موقف میں کسی لچک کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس لیے امریکہ اب بھی پاکستان کا کردار اہم سمجھتا ہے۔ اس پس منظر میں سینیٹر لنڈسے گراہم کا دورہ اسلام آباد اہمیت کا حامل ہے۔
ظفر جسپال کے بقول امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کے فروغ کا بھی خواہاں ہے، بلکہ افغانستان میں پاکستان کے مثبت کردار کے لیے پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کا متمنی ہے۔ تاکہ پاکستان طالبان پر اثر انداز ہو سکے۔
تاہم ظفر جسپال کے بقول طالبان کے پاکستان کے ساتھ رابطے ضرور ہیں، لیکن یہ تاثر شاید درست نہیں کہ پاکستان طالبان کو امریکی مطالبات ماننے پر آمادہ کر سکتا ہے۔ تاہم ان کے بقول پاکستان ایک سہولت کار کا کردار ضرور ادا کر سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے افغان امن کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان افغان امن کے عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہے گا۔
سینیٹر لنڈسے گراہم امریکی سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کی سربراہ اور خارجہ امور کی کمیٹی کی اہم رکن اور صدرٹرمپ کے قریب ہیں۔ رواں سال یہ پاکستان کا ان کا دوسرا دورہ ہے۔