رسائی کے لنکس

پاکستان چاہے تو افغان جنگ فوری ختم ہو سکتی ہے: امریکی سینیٹر


امریکی سینیٹر لنزے گراہم (فائل فوٹو)
امریکی سینیٹر لنزے گراہم (فائل فوٹو)

امریکی کانگریس کے رکن سینیٹر لنزے گراہم نے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ کو طالبان کے بجائے پاکستان سے بات چیت شروع کرنی چاہیے۔ ان کے بقول اگر پاکستان طالبان کے مبینہ محفوظ ٹھکانے ختم کر دے تو افغان جنگ ہفتوں میں ختم ہو سکتی ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے 'فاکس نیوز' کو دیے گئے انٹرویو میں لنزے گراہم نے کہا "ہم معاملے کا ادراک نہیں کر سکے، میرے خیال میں طالبان کے بجائے ہمیں پاکستان سے بات چیت شروع کرنی چاہیے۔‘‘

ان کے بقول اگر پاکستان طالبان کے مبینہ محفوظ ٹھکانے ختم کر دے تو افغانستان میں جنگ ہفتوں میں ختم ہو سکتی ہے۔

اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لنزے گراہم نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ایسا آزادانہ تجارتی معاہدہ ہونا چاہیے جو سیکیورٹی امور پر پاکستان کی کارکردگی سے مشروط ہو۔ جس سے پاکستان اپنا طرز عمل تبدیل کرے۔

انہون نے کہا کہ اس کے بعد طالبان سے بات ہونی چاہیے۔ لنزے گراہم نے کہا کہ "میں جنگ ختم کرانے کے لیے طالبان پر جتنا ممکن ہو سکے دباؤ برقرار رکھنے کا خوہاں ہوں۔"

طالبان وفد نے رواں سال اکتوبر میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ (فائل فوٹو)
طالبان وفد نے رواں سال اکتوبر میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ (فائل فوٹو)

یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال ستمبر میں معطل ہونے والی بات چیت ہفتے کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہو گئی ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بات چیت رواں سال ستمبر میں اس وقت معطل کر دی تھی جب فریقین امن معاہدے کے قریب تھے۔

وائس آف امریکہ کی درخواست کے باوجود پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے لنزے گرہم کے بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ امریکی سینیٹر نے افغان امن عمل میں پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اشارتاً بات کی ہے۔

شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان طالبان کی طرف سے بات چیت نہیں کر سکتا۔ لہذٰا سینیٹر لنزے کے بیان میں کسی حد تک مبالغہ آرائی کا عنصر بھی شامل ہے۔

شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکی سینیٹر کے بیان میں کچھ مبالغہ آرائی ہے تاہم امریکی سینیٹر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ افغان عمل میں سہولت کار کے طور پر پاکستان کی اہمیت مسلمہ ہے۔ درحقیقت وہ پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان کی شمولیت کے بغیر امن عمل میں پیش رفت نہیں ہو سکتی۔

سابق سیکریٹری خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے طور پر افغان امن عمل میں ہر ممکن کردار ادا کیا ہے۔ جسے وہ مستقبل میں جاری رکھے گا۔

زلمے خلیل زاد افغان امن عمل کے لیے ایک بار پھر سرگرم ہیں۔ (فائل فوٹو)
زلمے خلیل زاد افغان امن عمل کے لیے ایک بار پھر سرگرم ہیں۔ (فائل فوٹو)

افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اگرچہ لنزے گراہم سینیٹر اور صدر ٹرمپ کے قریب سمجھتے جاتے ہیں۔ لیکن یہ تاثر درست نہیں کہ طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ فیصلہ کن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب طالبان کے قطر، روس اور چین کے علاوہ بھی کئی ممالک کے ساتھ تعلقات استوار ہو چکے ہیں۔

رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ افغان قضیے کے اصل فریقین طالبان، افغان حکومت اور امریکہ ہیں۔ جب تک ان تینوں کے درمیان کوئی اتفاق رائے نہیں ہوتا معاملہ حل نہیں ہو گا۔

پاکستان ماضی میں تردید کرتا رہا ہے کہ اس کی سرزمین پر طالبان یا کسی بھی دہشت گرد گروہ کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس نے ہزاروں سیکیورٹی فورسز اور شہریوں کی قربانیاں دی ہیں۔ لہذٰا عالمی برادری ان کوششوں کا اعتراف کرے۔

XS
SM
MD
LG