رسائی کے لنکس

تناؤ کے باوجود 145 بھارتی ماہی گیروں کی پاکستان سے رہائی


’’پاکستان اور بھارت اس وقت باہمی اعتماد کی سب سے نچلی سطح پر ہیں۔‘‘

جنوبی ایشیا کے دو حریف ملکوں پاکستان اور بھارت کے تعلقات 2017ء میں انتہائی کشیدہ رہے اور رواں ہفتے پاکستان میں قید سزا یافتہ مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی اسلام آباد میں ان کے اہل خانہ سے ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کی باہمی تناؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایک بار پھر کلبھوشن کی والدہ اور اہلیہ کے ساتھ اسلام آباد میں روا رکھے جانے والے مبینہ ناروا سلوک کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان پر سخت تنقید کی۔

واضح رہے کہ پیر کو پاکستانی دفتر خارجہ میں ہونے والی اس ملاقات سے پہلے کلبھوشن کی اہلیہ کے جوتوں میں کسی مبینہ مشکوک چیز کی موجودگی کی وجہ سے انہیں دوسرے جوتے فراہم کیے گئے تھے جس کے ردعمل میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ سیکورٹی کے نام پر مذہبی و ثقافتی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی اور کلبھوشن کی اہلیہ کے جوتے بھی واپس نہیں کئے گئے۔

دوسری طرف جمعرات کو بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں ایک بیان میں کہا گیا کہ جوتوں میں کسی چپ یا کسی دوسری مشکوک چیز کی موجودگی ایک' مضحکہ خیز' بات ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ملاقات سے پہلے اور بعد میں کلبھوشن کی اہلیہ کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا گیا ۔

تاہم پاکستان پہلے ہی اس طرح کے الزامات کو مسترد کر تے ہوئے یہ کہ چکا ہے کہ یہ ملاقات محض انسانی ہمدردی کے تحت کروائی گئی۔

مبصرین یہ توقع کر رہے تھے کہ یہ ملاقات اسلام آباد اور نئی دہلی کے مابین اعتماد کی فضا کو بہتر کرنے میں معاون ہو گی تاہم نتیجہ اس کے برعکس سامنا آیا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان الزامات کے تبادلے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

سینئر صحافی اور جنوبی ایشا کے امور کے ماہر امتیاز عالم نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ" میرے خیال میں پاکستان اور بھارت اس وقت باہمی اعتماد کی سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ اس سطح کی صورت حال میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ پچھلے چار سال اسی طرح گزرے ہیں۔ درمیان میں (تعلقات کی بہتری کا )کچھ امکان بنا تھا لیکن اس کو پھر دھچکا لگا ہے ۔"

دوسری طرف بین الاقوامی امور کے ماہر ظفر جسپال کے خیال میں مستقبل قریب میں اسلام آباد اور دہلی کی باہمی کشیدگی میں کمی کا ان کے بقول کوئی امکان نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ " اس وقت جو تناؤ میں شدت ہے وہ آئندہ چند ماہ تک برقرار رہے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر سال فروری میں ہمیشہ بھارت کا دفاعی بجٹ حتمی طور پر طے کیا جاتا ہے ۔ یہ صورت حال میں نے گزشتہ تین چار سالوں میں دیکھی ہے کہ جب بھی یہ موقع آتا ہے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن بعد میں صورت حال معمول پر آنا شروع ہو جاتی ہے۔"

دوسری طرف پاکستان نے جمعرات کو 145 بھارتی ماہی گیروں کو رہا کر دیا ہے جنہیں میبنہ طور پر پاکستان کی سمندری حدود کے خلاف ورزی کرنے پر حراست میں لے گیا تھا۔ ان کے بارے میں پاکستان کا کہنا ہے کہ انہیں انسانی ہمددری اور جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا کیا جارہا ہے۔

ان ماہی گیروں کی رہائی گزشتہ ہفتے پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل کے اس بیان کے بعد عمل میں آئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان نے 291 بھارتی ماہی گیروں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی رہائی دو مرحلوں میں عمل میں لائی جائے گی۔

واضح رہے کہ بھارت نے بھی گزشتہ ماہ 9 ماہی گیروں سمیت 13 پاکستانی شہریوں کو رہا کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG