پاکستان فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب کو اداروں اور حکومت کے خلاف عوام کو اکسانے کے مقدمے میں تین روزہ جسمانی ریمانڈ پو پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے امجد شعیب کو اتوار اور پیر کی درمیانی شب ان کی رہائش گاہ سےحراست میں لیا تھا جن کے خلاف مجسٹریٹ اویس خان کی مدعیت میں مقدمہ درج ہے۔
پولیس نے پیر کی صبح انہیں اسلام آباد کے جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش کیا جہاں دورانِ سماعت سرکاری وکیل عدنان احمد نے امجد شعیب کے خلاف درج مقدمے کا متن پڑھ کر سنایا۔
سرکاری وکیل کے مطابق امجد شعیب نے بطور مہمان نجی ٹی وی کے پروگرام کے دوران حکومت، حزبِ اختلاف اور سرکاری ملازمین کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش کی۔
اس موقع پر پولیس نے عدالت سے امجد شعیب کے سات روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تاہم وکیل صفائی مدثر خالد عباسی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کیس خارج کرنے کی درخواست کی ۔
مدثر عباسی نے کہا کہ عدالت نے دیکھناہےکہ امجد شعیب نے کوئی جرم کیابھی ہے یانہیں؟ اگر عدالت کو لگتا ہے کہ ملزم نے کوئی جرم نہیں کیا تو کیس خارج کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں درج مقدمے میں درخواست گزار مجسٹریٹ اویس خان نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ 25 فروری کو وہ مقامی ٹیلی ویژن ’بول ٹی وی‘ پر ایک شو ’عمران خان بول کے ساتھ‘ دیکھ رہے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں امجد شعیب نے کہا کہ ایسی حکمتِ عملی بنائی جائے جس میں اپیل کی جائے کہ کل اسلام آباد میں سرکاری دفتروں میں کوئی نہیں جائے گا، اگر اس کال پر لوگ نہیں جاتے تو حکومت سوچنے پر مجبور ہو گی۔
مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ مجسٹریٹ کے مطابق اس بیان اور تجزیے کے ذریعے امجد شعیب نے سرکاری ملازمین اور حزب، اختلاف کی جماعتوں کو قانونی و سرکاری فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے لیے اکسایا ہے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق امجد شعیب نے بیان سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بندی کے تحت دیا تاکہ حکومت کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی پھیلا کر ملک کو کمزور کیا جاسکے۔
پیر کو سماعت کے دوران امجد شعیب کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موکل نے ایک مخصوص صورتِ حال کے حوالے سے صرف مثال دی۔ان کے خلاف صرف سیاسی بنیادوں پر مقدمہ درج ہوا ہے کیوں کہ انہوں نے آج تک ایسی بات نہیں کی جس سے ملک کو کوئی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے پولیس کی سات روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے امجد شعیب کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
دفاعی تجزیہ کار اور سابق بریگیڈیئر سید نذیر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں امجد شعیب کو پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی طرف سے تجزیہ کاروں کی فہرست میں اہم سمجھا جاتا تھا لیکن بعد میں ان کے خیالات ایک سیاسی جماعت کے قریب ہوتے گئے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ سید نذیر کے بقول، "اگر آپ کسی سیاسی جماعت کی سوچ کے ساتھ بہت زیادہ متفق ہو چکے ہوں تو آپ کو اس جماعت کا حصہ بن جانا چاہیے لیکن اس طرح نہیں ہونا چاہیے کہ آپ فوج کے تجزیہ کار ہوں اور ایک سیاسی جماعت کی بھرپور حمایت کر رہے ہوں۔"
ان کا دعویٰ تھا کہ کچھ عرصہ قبل امجد شعیب اور کئی دیگر سابق فوجی افسران کو جی ایچ کیو طلب کیا گیا تھا، جہاں انہیں اس حوالے سے احتیاط برتنے کا مشورہ دیا گیا تھا لیکن یوٹیوب پر ان کے وی لاگز اور تجزیوں میں سیاسی عنصر زیادہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ فوج نے خود کو غیرسیاسی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے تمام ایسے اقدامات سے خود کو دور کیا جا رہا ہے جن سے جانب داری یا کسی سیاسی جماعت کے قریبی تعلق کو ظاہر کیا جا رہا ہو، لہٰذا فوج نے ایسے تجزیہ کاروں سے بھی خود کو دور کر لیا ہے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ سید نذیر کے مطابق "دفاعی تجزیہ کار کو سیاست سے دور رہتے ہوئے صرف میرٹ پر دفاع کے حوالے سے بات کرنی چاہیے۔"
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے امجد شعیب کےخلاف درج مقدمے کو مضحکۂ خیز قرار دیا ہے۔
انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ جبر اور عدل کا ناپید ہونا بہرحال ریاست اور معاشرے کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے۔امجد شعیب کے کئی خیالات سے انہیں اختلاف رہا ہے لیکن یہ رویہ قابلِ مذمت ہے۔
انہوں نے 'الفاظ کے ذریعے ریاست کو کمزور کرنے کے الزام' پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ کبھی ریاستیں بھی الفاظ کے ذریعے کمزور ہوئی ہیں؟