رسائی کے لنکس

’توہین مذہب قوانین کا غلط استعمال روکا جائے‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے اثرات کے موضوع پر تیار کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اس الزام کا سامنا کرنے والے افراد کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے بے انتہا کوشش کرنی پڑتی ہے

انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم "ایمنسٹی انٹرنیشنل" نے کہا ہے کہ توہین مذہب سے متعلق پاکستان کے قوانین کا اکثر غلط استعمال نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے واقعات کا موجب ہے بلکہ یہ لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا بھی سبب بنتا ہے۔

بدھ کو اپنی ایک رپورٹ میں تنظیم کا کہنا تھا کہ ایسے بے شمار شواہد موجود ہیں کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق اگر ایک شخص پر توہین مذہب کا الزام لگ جاتا ہے تو وہ تنظیم کے بقول ایک ایسے نظام میں پھنس جاتا ہے جس میں تحفظ بہت ہی کم ہے، اسے قصور وار تصور کیا جاتا ہے اور اسے ایسے لوگوں سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی ہوتی ہے جو تشدد کی راہ اختیار کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔

پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے اثرات کے موضوع پر تیار کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اس الزام کا سامنے کرنے والے افراد کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے بے انتہا کوشش کرنی پڑتی ہے اور اگر وہ اس سے بری ہو بھی جائیں تو بھی انھیں جان کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان قوانین کو نئی قانون سازی کے ذریعے تبدیل کیا جائے جو کہ بین الاقوامی قوانین کے معیار پر بھی پورے اترتے ہوں۔

حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ وہ ملک میں بسنے والے تمام شہریوں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدام کرتی آرہی ہے اور خاص طور پر غیرمسلم آبادی کو عدم مساوات پر مبنی سلوک سے بچانے کے لیے خصوصی توجہ دے رہی ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین محمود بشیر ورک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بات سے اتفاق کیا کہ توہین مذہب کے قانون کا بعض لوگ غلط استعمال کرتے ہیں لیکن ان کے بقول ایسے لوگوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کے لیے حکومت پرعزم ہے۔

"اس نہایت حساس کام پر قانون کے مطابق عملدرآمد ہونا چاہیے۔ موجودہ حکومت نے اس پر عملدرآمد کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔۔۔ہم ایسے اقدام کر رہے ہیں اور مزید اقدام کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں لوگوں کو تربیت اور تعلیم اور حقائق کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں حکومت سے جو ممکن ہے وہ ہم کرتےہیں۔"

حالیہ برسوں میں جہاں ایسے واقعات سامنے آئے کہ توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے ملزمان کو موت کے گھاٹ اتارا وہیں چند ایک ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جہاں پولیس نے بروقت مداخلت کرتے ہوئے لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے سے روکا۔

توہین مذہب پاکستان میں ایک حساس نوعیت کا معاملہ ہے اور اس قانون میں کسی بھی طرح کی ترمیم پر خاص طور پر ملک کے مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آتا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG