ایتھن کیسی امریکی مصنف اور کالم نگار ہیں۔ وہ اپنی کتابAlive and Well in Pakistanمیں بذریعہ سڑک پاکستان کے سفر کی روئداد بیان کرتے ہیں۔
ہفتے کو ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ انٹرویو میں وہ پاکستان اورافغان معاشروں سے شناسائی، افغانستان میں امریکی موجودگی، قرآن پاک کے نذر آتش کیے جانے کے واقعے، افغانستان کے مستقبل، طالبان کے ساتھ مذاکرات، افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار اور پاکستان کے سفر سے متعلق ذاتی مشاہدات بیان کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 2001ء میں نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر ٹاورز پر حملوں کے نتیجے میں دس سال قبل کے امریکی جذبات کے تحت افغانستان پر حملہ کیا جانا، اُن کے بقول، سیاسی طور پر ناگزیر تھا۔
اُن کے بقول، اُن حالات میں، سابق صدر پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دے کر پاکستان کے ساتھ محبت کا ثبوت دیا۔
ایتھن کیسی نے کہا کہ افغانستان جانے میں امریکہ کے دو اہم مقاصد تھے، یعنی طالبان اور القاعدہ کو شکست دینا، اور اُن کے بقول، یہ دونوں مقاصد حاصل ہو چکے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ حالتِ جنگ میں مشن بدلتے رہتے ہیں۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے ویتنام جنگ کا حوالہ دیا۔
قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے واقعے کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایک ’احمقانہ حرکت‘ تھی، لیکن یہ ’دانستہ‘ معاملہ نہیں تھا، اور یہ کہ امریکی انتظامیہ کی اعلیٰ ترین سطح پر معذرت کے اظہار کےنتیجے میں اب صورت حال میں بہتری کی توقع ہے۔
ایتھن کیسی کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کو ایک دوسرے کے جائز مفادات کا احترام کرنا چاہیئے۔