لیبیا میں مظاہرین اور مسلح گروہ ’ملیشیا‘ کے درمیان جھڑپ میں کم از کم 31 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے۔
مظاہرین طرابلس میں ملیشیا کے صدر دفتر کی جانب مارچ کر رہے تھے اور اُن کا مطالبہ تھا کہ یہ مسلح گروہ شہر سے چلا جائے۔ اس دوران ملیشیا کے اراکین نے فائرنگ شروع کر دی۔
ملک میں 2011ء کے دوران سابق حکمران معمر قزافی کی حکومت کے خلاف بغاوت میں اس ملیشیا نے اہم کردار ادا کیا تھا اور ایک طاقتور فورس کے طور پر وہ اب لیبیا میں موجود ہے۔
ملیشیا کے خلاف مظاہرے میں شامل افراد نے لیبیا کے قومی پرچم اور سفید جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور وہ یہ نعرے لگا رہے تھے کہ ’’ہمیں فوج چاہیئے، ہمیں پولیس چاہیئے‘‘۔
اس سے قبل بھی یہ مطالبات کیے جاتے رہے ہیں کہ ملک میں کمزور سکیورٹی فورسز ملیشیا کی جگہ ذمہ داریاں سنبھالیں۔
ملیشیا میں شامل ایک شخص نے مظاہرین کو خوفزدہ کرنے کے لیے پہلے ہوا میں گولیاں چلائیں لیکن جب مارچ جاری رہا تو مسلح افراد نے مطاہرین پر براہ راست فائرنگ شروع کر دی۔
مظاہرین منتشر ہو گئے لیکن بعد میں بھاری ہتھیاروں کے ساتھ اُنھوں نے ملیشیا کے کمپاؤنڈ پر حملہ کیا اور مسلح گروہ کے ارکان رات دیر گئے تک عمارت میں محصور رہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ علاقے کی صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے۔
لیبیا کے وزیرِ اعظم علی زیدان بھی کہہ چکے ہیں کہ دارالحکومت میں موجود تمام ملیشیاؤں کو شہر خالی کرنا ہو گا۔
مظاہرین طرابلس میں ملیشیا کے صدر دفتر کی جانب مارچ کر رہے تھے اور اُن کا مطالبہ تھا کہ یہ مسلح گروہ شہر سے چلا جائے۔ اس دوران ملیشیا کے اراکین نے فائرنگ شروع کر دی۔
ملک میں 2011ء کے دوران سابق حکمران معمر قزافی کی حکومت کے خلاف بغاوت میں اس ملیشیا نے اہم کردار ادا کیا تھا اور ایک طاقتور فورس کے طور پر وہ اب لیبیا میں موجود ہے۔
ملیشیا کے خلاف مظاہرے میں شامل افراد نے لیبیا کے قومی پرچم اور سفید جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور وہ یہ نعرے لگا رہے تھے کہ ’’ہمیں فوج چاہیئے، ہمیں پولیس چاہیئے‘‘۔
اس سے قبل بھی یہ مطالبات کیے جاتے رہے ہیں کہ ملک میں کمزور سکیورٹی فورسز ملیشیا کی جگہ ذمہ داریاں سنبھالیں۔
ملیشیا میں شامل ایک شخص نے مظاہرین کو خوفزدہ کرنے کے لیے پہلے ہوا میں گولیاں چلائیں لیکن جب مارچ جاری رہا تو مسلح افراد نے مطاہرین پر براہ راست فائرنگ شروع کر دی۔
مظاہرین منتشر ہو گئے لیکن بعد میں بھاری ہتھیاروں کے ساتھ اُنھوں نے ملیشیا کے کمپاؤنڈ پر حملہ کیا اور مسلح گروہ کے ارکان رات دیر گئے تک عمارت میں محصور رہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ علاقے کی صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے۔
لیبیا کے وزیرِ اعظم علی زیدان بھی کہہ چکے ہیں کہ دارالحکومت میں موجود تمام ملیشیاؤں کو شہر خالی کرنا ہو گا۔