پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد ملک بھر خاص طور پر پنجاب میں مشتبہ افراد کے خلاف شروع کیے گئے ’کریک ڈاؤن‘ کے بعد ایسی خبریں سامنے آئیں کہ صوبہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی ایسے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ پختونوں کے ساتھ ’نسلی تعصب‘ کی بنیاد پر کسی بھی طرح کا سلوک دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں سود مند نہیں ہو گا۔
اس معاملے پر سول سوسائٹی کے نمائندوں اور نوجوان پختونوں نے اسلام آباد میں منگل کو نیشنل پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا۔
اس احتجاجی مظاہرے میں شریک افراد نے ہاتھوں میں بینرر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر درج تھا کہ پختون دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار ہیں۔
اس معاملے نے اتنی شدت اختیار کی کہ منگل کو جب پارلیمانی جماعتوں کا اسلام آباد میں اجلاس ہوا، تو اس میں بھی سیاسی پارٹیوں کی قیادت کی طرف سے حکومت سے یہ کہا گیا کہ وہ ایسے واقعات کا نوٹس لے۔
یہ معاملہ اس قدر بڑھ گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو میں وضاحت کی کہ پنجاب میں آپریشن کسی خاص قوم سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف نہیں بلکہ شدت پسندوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔
’’پنجاب میں بسنے والے پختون ہمارے بھائی ہیں، ہماری مائیں بہنیں ہیں۔۔ اُن کی سلامتی ہمیں اتنی ہی عزیز ہے جتنی کہ ہمیں اپنی سکیورٹی عزیز ہے۔۔۔ یہاں پر پختون دہائیوں سے بس رہے ہیں، کاروبار کر رہے ہیں۔‘‘
شہباز شریف نے کہا کہ ’’دہشت گرد کا نا تو کوئی مذہب ہے اور نا ہی اُس کی کوئی جغرافیائی شناخت ہے، دہشت گرد صرف دہشت گرد ہے۔‘‘
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ پختونوں سے تعصب پر مبنی کسی بھی طرح کا رویہ ملک کی سلامتی کے لیے خطرناک ہو گا۔
’’اس سے میرے وفاق کو بہت بڑے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، جیسے سندھی اور پنجابی محب وطن ہے۔ جیسے پاکستان کے ہر شہر میں رہنے بسنے والا محب وطن ہے اس طریقے سے پختون بھی محب وطن ہے۔ اُن کے ساتھ اس قسم کا رویہ حکومت کی طرف سے رکھنا قابل مذمت بھی ہے اور قابل افسوس بھی ہے۔‘‘
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پختونوں کو درپیش مسائل کے بارے میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اُنھیں اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
’’اگر کسی سے زیادتی ہو رہی ہے، میرے ساتھیوں نے اس بارے میں مجھے بتایا ہے اُس پر پر کارروائی کر رہے ہیں۔‘‘
اس سے قبل حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کے صوبہ خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والے سینیئر راہنما امیر مقام نے وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کر کے اس بارے میں بات کی تھی۔
دریں اثنا ہیومین رائٹس کمیش آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی طرف سے پیر کی شام جاری کیے گئے ایک بیان میں بھی نسلی امتیاز کی بنیاد پر کارروائی کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ ’ایچ آر سی پی‘ کو اس امر پر تشویش ہے کہ پنجاب کے کچھ اضلاع کی انتظامیہ نے لوگوں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ پختونوں یا فاٹا کے باشندوں سے ملتی جلتی شکل وصورت والے مشتبہ افراد پر نظر رکھیں اور اگر وہ کوئی بھی مشکوک سرگرمی کرتے نظر آئیں تو انتظامیہ کو اس سے مطلع کریں۔
’ایچ آر سی پی‘ کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ایسے حفاظتی اقدامات کا اعلان کیا جانا چاہیے جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ ’’لوگوں کو ان کی شکل و صورت یا چہرے کے خدوخال کی وجہ سے ہراساں نہ کیا جائے اور ان کے ساتھ مشتبہ افراد جیسا سلوک نہ کیا جائے۔“