پاکستان کی قومی اسمبلی نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2013ء منظور کرلیا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، اس بل کا مقصددہشت گردوں کے خلاف موٴثر اور سخت قانونی کارروائی ہے۔ بل بدھ کو وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے پیش کیا تھا۔
بل کے تحت اب کسی بھی مشتبہ دہشت گرد کی نظر بندی ملک کی کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکے گی۔
حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کے ارکان کو پاسپورٹ، اسلحہ لائسنس ، یہاں تک کہ کریڈٹ کارڈ بھی جاری نہیں ہو سکیں گے جبکہ پہلے سے جاری اسلحہ لائسنس منسوخ تصور ہوں گے۔
کالعدم تنظیم کے عہدیداروں اور ان کے ساتھیوں کو غیر ملکی سفر کی ہرگزاجازت نہیں ہوگی۔
کالعدم تنظیموں کی جانب سے اسلحہ جمع نہ کرانے کی صورت میں اسے بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا۔
بل کے تحت کسی بھی مشکوک شخص کی نظر بندی کے احکامات جاری کئے جا سکتے ہیں۔ تاہم، نظر بندی کی مدت 90 روز سے زائد نہیں ہوگی ۔ اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
سب انسپکٹر سے کم عہدے کا افسر ملزمان سے تفتیش نہیں کر سکے گا۔
نظر بند شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر اندرانسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنا ہوگا۔
ملزمان کے فون کاڈیٹا، ای میلز اور کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بطور ثبوت استعمال ہوسکیں گے۔
ماضی میں دہشت گردی میں ملوث رہنے والا کوئی شخص اگر فوج کے آپریشنل ایریا کے قریب پایا گیا تو وہ بھی ملزم تصور ہوگا۔
اگر کسی ملزم کی جائیداد ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو سمجھا جائے گا کہ یہ اثاثے دہشت گردی کے ذرائع سے بنائے گئے ہیں۔ لہذا، وہ ضبط کر لیے جائیں گے۔
اس ایکٹ کے تحت اگر کسی کو سزائے موت، عمر قید یا 10 سال سے زائد کی سزا ہو تو اس کی ضمانت کوئی عدالت منظور نہیں کر سکے گی۔
شہریوں، سرکاری اہلکاروں، تنصیبات یا سیکورٹی فورسز پر حملہ کرنے کی تیاری کرنے والا بھی ملزم تصور ہوگا، دھماکا خیز مواد یا اس سے غیر قانونی تعلق رکھنے والا بھی ملزم تصور ہوگا۔
بل کے تحت اب کسی بھی مشتبہ دہشت گرد کی نظر بندی ملک کی کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکے گی۔
حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کے ارکان کو پاسپورٹ، اسلحہ لائسنس ، یہاں تک کہ کریڈٹ کارڈ بھی جاری نہیں ہو سکیں گے جبکہ پہلے سے جاری اسلحہ لائسنس منسوخ تصور ہوں گے۔
کالعدم تنظیم کے عہدیداروں اور ان کے ساتھیوں کو غیر ملکی سفر کی ہرگزاجازت نہیں ہوگی۔
کالعدم تنظیموں کی جانب سے اسلحہ جمع نہ کرانے کی صورت میں اسے بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا۔
بل کے تحت کسی بھی مشکوک شخص کی نظر بندی کے احکامات جاری کئے جا سکتے ہیں۔ تاہم، نظر بندی کی مدت 90 روز سے زائد نہیں ہوگی ۔ اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
سب انسپکٹر سے کم عہدے کا افسر ملزمان سے تفتیش نہیں کر سکے گا۔
نظر بند شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر اندرانسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنا ہوگا۔
ملزمان کے فون کاڈیٹا، ای میلز اور کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بطور ثبوت استعمال ہوسکیں گے۔
ماضی میں دہشت گردی میں ملوث رہنے والا کوئی شخص اگر فوج کے آپریشنل ایریا کے قریب پایا گیا تو وہ بھی ملزم تصور ہوگا۔
اگر کسی ملزم کی جائیداد ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو سمجھا جائے گا کہ یہ اثاثے دہشت گردی کے ذرائع سے بنائے گئے ہیں۔ لہذا، وہ ضبط کر لیے جائیں گے۔
اس ایکٹ کے تحت اگر کسی کو سزائے موت، عمر قید یا 10 سال سے زائد کی سزا ہو تو اس کی ضمانت کوئی عدالت منظور نہیں کر سکے گی۔
شہریوں، سرکاری اہلکاروں، تنصیبات یا سیکورٹی فورسز پر حملہ کرنے کی تیاری کرنے والا بھی ملزم تصور ہوگا، دھماکا خیز مواد یا اس سے غیر قانونی تعلق رکھنے والا بھی ملزم تصور ہوگا۔