عالمی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے کہا ہے کہ وہ ادارے میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے سوشل میڈیا پالیسی پر نظر ثانی کر رہا ہے۔ اے پی کی جانب سے یہ فیصلہ پچھلے ہفتے ادارے سے منسلک صحافی ایملی ولڈر کو سوشل میڈیا پر فلسطین کی حمایت کرنے پر ملازمت سے برطرف کرنے کے بعد کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اے پی کی جانب سے 22 برس کی صحافی ایملی ولڈرکو، جنہوں نے رواں ماہ کی 3 تاریخ کو ایجنسی کے ساتھ کام شروع کیا تھا محض دو ہفتوں بعد ہی ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔ ایجنسی کی جانب سے بتایا گیا کہ انہیں ملازمت شروع کرنے کے بعد ایجنسی کی سوشل میڈیا پالیسی کی خلاف ورزی پر ملازمت سے برطرف کیا گیا۔
اس پالیسی کی رو سے خبر رساں ادارے سے منسلک افراد کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی متنازعہ موضوع پر اپنی رائے کے اظہار سے گریز کریں، تاکہ ایک غیر جانبدار ادارے کے طور پر اے پی کی شہرت اور دنیا بھر میں پھیلے اس کے صحافیوں کی ساکھ کو نقصان نہ پہنچے۔
ایجنسی کی طرف سے ایملی ولڈر کی برطرفی کے خلاف اے پی سے منسلک 100 سے زائد صحافیوں نے ادارے کے اس اقدام پر ایک خط میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ صحافیوں نے ادارے کی سوشل میڈیا سے متعلق پالیسی کی بھی وضاحت کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین دلایا جائے کہ کمپنی اپنے صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے چلنے والی مہمات کے خلاف ان کی حفاظت کرے گی۔
اے پی کی جانب سے ملازمین کو بھیجے جانے والے میمو میں ملازمین سے ایسے رضاکار مانگے گئے جو کمپنی کو اس کی سوشل میڈیا گائیڈ لائینز کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کریں تاکہ ایک کمیٹی ان تجاویز کو ستمبر تک پیش کرے۔
میمو میں کہا گیا کہ ’’حالیہ دنوں میں جو مسائل سامنے آئے ہیں ان میں یہ خیال بھی ہے کہ سوشل میڈیا سے متعلق کمپنی کی پابندیوں کی وجہ سے صحافی مکمل طور پر اپنی ترجمانی نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے غیر سفید فام اور ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے صحافی اور دیگر افراد کو جو آن لائین تنقید کے نشانے پر زیادہ رہتے ہیں،انتہائی نقصان پہنچتا ہے‘‘ میمو میں مزید لکھا گیا کہ ہمیں اس مسئلے کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ ایملی ولڈرکے خلاف، جو سٹینفورڈ یونیورسٹی کی طالبہ رہ چکی ہیں،اور جنہوں نے محض دو ہفتے پہلے ہی ایسو سی ایٹڈ پریس کے لیے کام شروع کیا تھا، سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ریپبلکن طلباٗ کے ایک گروپ نے بھی ایک شکایت درج کروائی تھی۔
ایملی ولڈر نے، جنہیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ انہوں نے خبر رساں ادارے کے کن قواعد کی خلاف ورزی کی تھی، کہا ہے کہ ان کی برطرفی کی وجوہات میں سے ایک انہیں ہراساں کرنے کی مہم بھی ہے۔
اے پی کے صحافیوں نے اس اقدام کے خلاف اپنے احتجاجی خط میں کہا ہے کہ برطرفی کی وجوہات کے بارے میں مزید تفصیلات دی جائیں تاکہ اس واقعے کا فائدہ ایسے لوگ نہ اٹھائیں جو رپورٹرز کے خلاف نفرت آمیز مہمات چلاتے ہیں۔
ایجنسی کا موقف ہے کہ اس بارے میں مزید تفصیلات ظاہر کرنا مشکل ہے کیونکہ کمپنی عوامی طور پر ذاتی مسائل پر گفتگو نہیں کرتی تاکہ اس کے سٹاف کی نجی معلومات کا تحفظ کیا جاسکے۔