عرب لیگ نے بین الاقوامی مبصرین کوتعیناتی کی اجازت دینے کے لیے شام کو دی گئی ڈیڈلائن میں چند گھنٹوں کی توسیع کردی ہے، تاہم شام نے اب تک اس حوالے سے کسی باضابطہ ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔
یاد رہے کہ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ نے گزشتہ روز قاہرہ میں ہونے والے اجلاس میں بین الاقوامی مبصرین کو ملک میں داخلے کی اجازت دینے کے لیے شامی حکومت کو جمعہ کی دوپہر تک کی ڈیڈلائن دی تھی جو آج پوری ہوگئی۔
تاہم ،عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے کہا ہے کہ وہ شام کو مطالبہ تسلیم کرنے کے لیے دیے گئے وقت میں آج رات تک توسیع کر رہے ہیں۔
عرب لیگ کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ اگر شام نے ڈیڈلائن سے قبل تنظیم کے مبصرین کو ملک میں داخلے کی اجازت دینے پہ رضامندی ظاہر نہ کی تو ہفتے کو ہونے والے اجلاس میں اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے پر غور کیا جائے گا۔
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل نبیل العربی نے کہا ہے کہ انہیں شامی حکومت کی جانب سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں مجوزہ مبصر مشن کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے ہیں۔
عرب لیگ کے تجویز کردہ امن معاہدے کے تحت پرتشدد کاروائیوں کے خاتمے اور سرکاری افواج کا شہروں سے انخلا کا وعدہ پورا کرنے میں صدر بشار الاسد کی حکومت کی ناکامی کے بعد تنظیم نے دو ہفتے قبل شام کی رکنیت معطل کردی تھی۔
دریں اثنا شام میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پہ نظر رکھنے والی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے نمائندوں نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ حزبِ مخالف سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کے خلاف شامی سیکیورٹی فورسز کی تازہ کاروائیوں میں مزید آٹھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
تشدد کے تازہ واقعات جمعہ کو اس وقت پیش آئے جب نمازِ جمعہ کے بعد ملک کے کئی شہروں میں حکومت مخالف مظاہرین سڑکوں پہ نکل آئے اور صدر بشار الاسد کے استعفی کا مطالبہ کیا۔
شام کےسرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر الاسد کے حامیوں کی جانب سے بھی حکومت کی حمایت اور عرب لیگ کے حالیہ مطالبات کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔
ادھر شام کی افواج نے کہا ہے کہ "دہشت گردوں" نے چھ فوجی پائلٹوں اور تین دیگر افسران کو قتل کردیا ہے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی 'صنا' کے مطابق واقعہ جمعرات کو حمص کے علاقے میں پیش آیا۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں مارچ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران اب تک ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ لیکن شامی حکومت بیشتر ہلاکتوں کی ذمہ داری دہشت گرد گروہوں اور مذہبی انتہا پسندوں پر عائد کرتی ہے۔
دریں اثنا تشدد کے خلاف اقوامِ متحدہ کی کمیٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کمیٹی کو شام میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کی اطلاعات ملی ہیں جن کے مطابق بعض واقعات میں سیکیورٹی فورسز نے زیرِ حراست بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔