تیونس میں سابق صدر زین العابدین کے 23 سالہ اقتدار کا خاتمہ اور انتخابات ، مصر میں صدر حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ اور لیبیا میں کرنل قدافی کے 42 سالہ دور کا نہایت ڈرامائی انجام۔ یہی نہیں شام میں صدر حافظ الاسد کے 30 سالہ اقتدار کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد کے 11 سالہ اقتدار کے خلاف جاری پرتشدد تحریک ۔یہ عرب دنیا میں آنے والی اس تبدیلی کے اثرات ہیں جنھیں امریکہ میں ٕمصر کے سفیر سمیع شکری جرمنی میں دیوار برلن کے گرنے سے تشبیہ دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ عرب دنیا کی اس تحریک کو ہم دیوار برلن سے تشبیہ دے سکتے ہیں کیونکہ اس کے اثرات اور نتائج نہ صرف خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لئے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ عرب دنیا کے لوگوں کی اپنے لیے مختلف نظام حکومت اور بہتر مستقبل کے لیے جدو جہد کے آغاز کی علامت ہے۔
سمیع شکری ، واشنگٹن میں نیشنل کونسل آن یو ایس عرب ریلیشن نامی ایک تحقیقی ادارے کے زیر اہتمام عرب دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کے بعد امریکہ اور باقی دنیا کی حکمت عملی کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جبکہ تبدیلیوں کے محرکات اور نتائج واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں ، امریکہ اور بین الاقوامی کمیونٹی کو ان ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل دیے بغیر ایسے حکمت عملی اپنانی ہوگی ، جس سے ان تبدیلیوں کے مثبت پہلووں سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
جبکہ امریکی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے منسلک معاشیات اور عالمی امور کے پروفیسر پال سولون کہتےہیں کہ اب امریکہ کے پاس موقع ہے کہ وہ عرب دنیا میں اپنے تشخص کو بہتر کر سکے۔ ان کا کہناتھا کہ عرب دنیا میں لوگوں کے اندر امریکہ کے کردار کے حوالے سے اعتماد کی کمی ہے۔ امریکہ کو اپنا اعتماد بحال کرنا ہوگا اور امریکہ کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو سدھارے لیکن مجھے لگتا ہے ایسا ہونا مشکل ہے۔
ایرک ڈیوس امریکہ کی رٹگرز یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ سٹڈیز کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں ۔ ان کے مطابق ایک حالیہ سروے میں ترکی ، عراق اور لبنان میں موجود آبادی کا 70 فیصد حصہ ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جو اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔
ڈاکٹر نجیب ایاچی عرب تحریک کے نقطہ آغاز بننے والے تیونس کے ایک تحقیقی ادارے مغرب سینٹر کے بانی ہیں۔ ان کے مطابق عرب دنیا میں تبدیلی ابھی جاری ہے۔ان کا کہناتھا کہ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سےپیش کیے جانے والے معاشی ماڈلز کو اب عرب خطے میں لاگو کیا جانا چاہیے لیکن پالیسیاں بدلنی ہوں گی۔
لیبیا سے تعلق رکھنے والی تجزیہ کار رانڈا فہمی نے لیبیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ لیبیا میں آنے والی تبدیلی میں امریکہ اور نیٹو کا اہم کردار رہا ہےلیکن ابھی لیبیا کو مزید عالمی مدد کی ضرورت ہے۔اور صرف مالی امدادنہیں بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری ، ٹیکنالوجی اور معاشی مواقعوں میں اضافہ لیبیا کے عوام کے اعتماد میں اضافہ کرے گا۔
جبکہ پروفیسر ایرک ڈیوس نے اس بات پر زور دیا کہ عرب ممالک کا آپس میں تعلق بھی اس ضمن میں اہم ہے کہ کیسے یہ ممالک ایک دوسرے کے مدد کرتے ہیں اور ساتھ مل کر چلتے ہیں۔