عرب دنیا کے ملکوں میں لوگ اپنے حکمرانوں کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ یمن کے دارالحکومت صنعا کی سڑکوں پر ہزاروں لوگ نعرے لگا رہے تھے، ہمیں کرپشن نہیں چاہیئے، ہمیں ڈکٹیٹر شپ قبول نہیں۔
عرب دنیا میں پھیلتی ہوئی بے چینی کے پیشِ نظر، صدر علی عبداللہ صالح نے جو 1978 سے بر سرِ اقتدار ہیں، بدھ کے روز اعلان کیا کہ 2013 میں اپنی صدارت کی مدت ختم ہونے پر وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ جمعرات کے روز ان کے حامیوں نے صنعا میں جوابی مظاہرہ کیا۔
یمنی نیوز ایجنسی عدن پریس کے لطفی شتارا کہتے ہیں کہ حکومت مخالف کے حوصلے تیونس کے واقعات سے بلند ہوئے ہیں جہاں حکومت کے خلاف مظاہروں کے بعد صدر نے استعفیٰ دے دیا اور ملک سے فرار ہو گئے ۔ تیونس میں جو کچھ ہوا اس سے مشرقِ وسطیٰ کے لوگوں میں خود اعتمادی آئی ہے۔
ان واقعات سے یہ قیاس آرائی شروع ہو گئی ہے کہ ساری عرب دنیا ڈومینو تھیوری کے زیرِ اثر آ سکتی ہے یعنی یہ نظریہ کہ ایک ملک میں ہونے والے واقعات ہمسایہ ملکوں میں بھی اسی قسم کے واقعات کو راہ دیں گے، جیسے کہ ڈومینو کے کارڈوں میں سے کوئی گرے تو سب گر جاتے ہیں۔
ندیم شاہدی لندن میں قائم چاتھم ہاؤس میں مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار ہیں۔ ان کی تھیوری یہ ہے کہ ڈومینو اسی وقت گرنے شروع ہو گئے تھے جب امریکہ کی قیادت میں عراق کے مردِ آہن صدام حسین کا تختہ الٹا گیا تھا۔’’میں سمجھتا ہوں کہ اس عمل کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب صدام حسین کا مجسمہ گرا تھا۔ پورے علاقے کے لیے یہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ اس سے لوگوں کو پتہ چلا کہ ڈکٹیٹر کتنے کمزور ہوتے ہیں۔ اس واقعے سے عرب دنیا میں ڈکٹیٹروں کی ہیبت ختم ہو گئی۔‘‘
شاہدی کہتے ہیں کہ پہلے تیونس میں اور اب مصر میں، لوگ جس برق رفتاری سے آمروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اوباما کا یہ منصوبہ کہ عرب ملکوں میں لیڈروں کے ساتھ بات چیت کی جائے، بے معنی ہو گیا ہے ۔اب ان ملکوں میں جو تبدیلیاں آ رہی ہیں ، ان کی روشنی میں منصوبے کو تبدیل کرنا ہوگا۔
تبدیلیاں اتنی ہمہ گیر ہیں اور اتنی تیزی سے آرہی ہیں کہ بین الاقوامی برادری حیرت میں رہ گئی ہے ۔ یمنی نیوز ایجنسی کے لطفی شتارا نے انتباہ کیا ہے کہ یمن میں جو جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ نامی دہشت گرد گروپ کا گھر ہے، اور جہاں بغاوت پھیلی ہوئی ہے، مغرب کو بہت تیزی سے اقدامات کرنے ہوں گے ۔ ’’اگر بین الاقوامی برادری یمن کو بہت سنجیدگی سے نہیں لیتی، تو ایک اور صومالیہ وجود میں آ جائے گا، بلکہ وہاں جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ کی موجودگی کی وجہ سے حالات صومالیہ سے بھی زیادہ خراب ہو جائیں گے۔ یمن میں سیاسی اختلافات ہیں، بہت سے قبیلے ہیں، اسلحہ ہے، اور بے روزگاری ہے، اور یہ ملک مصر سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔‘‘
مصر کے احتجاجی مظاہروں کی حمایت میں مراکش اور کئی دوسرے عرب ملکوں میں مظاہر ے ہوئے ہیں۔ مظاہرین میں یہ احساس موجود ہے کہ ان کی تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔ پین عرب ایسوسی ایشن آف موراکوکے انسانی حقوق کے وکیل خالد سیفیانی کہتے ہیں کہ موجودہ احتجاجی مظاہروں کا پیغام ان ملکوں کی سرحدوں کے پار بھی پہنچ رہا ہے۔ ’’مصر اور تیونس میں ہنگاموں سے عرب اور مسلمان دنیا کے تمام لیڈروں کو یہ واضح پیغام مل رہا ہے کہ انھیں اپنے عوام کی عزت نفس بحال کرنی چاہیئے اور بد عنوانی اور قانون کی خلاف ورزی کو ختم کرنا چاہیئے ورنہ ان کا حشر بھی مصر اور تیونس کے لیڈروں جیسا ہوگا۔‘‘
تجزیہ کار کہتےہیں کہ اس علاقےمیں مصر اتنا اہم ملک ہے کہ وہاں جو کچھ بھی ہوگا، اس کے اثرات پوری عرب دنیا کے مستقبل پر محسوس کیئے جائیں گے۔