|
نئی دہلی -- امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے نئی دہلی کے دورے کے موقع پر جوہری تعاون معاہدے سے متعلق دیے گئے بیان کو کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
تجزیہ کار ان کے بیان کے تناظر میں اُمید ظاہر کر رہے ہیں کہ دونوں ملک 20 سال قبل کیے جانے والے جوہری تعاون معاہدے کو عنقریب حتمی شکل دینے کے قریب پہنچنے والے ہیں۔
جیک سلیوان اتوار اور پیر کو بھارت کے دو روزہ سرکاری دورے پر نئی دہلی میں تھے۔
انھوں نے پیر کو ’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی دہلی‘ میں ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ بھارت کے ساتھ سول جوہری تعاون معاہدے کی راہ میں حائل دیرینہ رکاوٹوں کو دور کرنے کے اقدامات کو حتمی شکل دے رہا ہے۔
ان کے مطابق توقع ہے کہ ُان ضوابط کو ہٹانے کے لیے جلد ہی کاغذی کارروائی کی جائے گی جو بھارتی اداروں اور امریکی کمپنیوں کو جوہری توانائی کے منصوبوں میں باہمی تعاون سے روکتے تھے۔
واضح رہے کہ بھارت جو دنیا کے سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے ملکوں میں شامل ہے، اگلے عشرے میں اپنے جوہری توانائی کے استعمال کو تیزی سے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ توانائی کی بڑھتی طلب کو پورا بھی کرنا چاہتا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت اور امریکہ نے 2006 میں سول جوہری تعاون معاہدہ کیا تھا۔ لیکن بھارت کی جانب سے 1998 میں جوہری دھماکہ کرنے کی وجہ سے امریکہ نے اس کے 200 سے زائد جوہری اداروں پر جو پابندی لگائی تھی اس کی وجہ سے یہ معاہدہ عملی شکل نہیں لے پا رہا تھا۔
بھارت نے 11 اور 13 مئی 1998 کو راجستھان کے پوکھرن میں جوہری دھماکہ کیا تھا۔ امریکہ کے ساتھ دوسرے کئی ملکوں نے بھی بھارت پر پابندی لگائی تھی۔
یو ایس فیڈرل رجسٹرار کے مطابق یو ایس ایکسپورٹ ایڈمنسٹریشن بیورو نے 1998 میں جوہری توانائی محکمے کے کچھ اداروں جیسے کہ بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر، انڈین ریئر ارتھز اور نیوکلیئر ری ایکٹرز وغیرہ پر پابندی لگائی تھی۔
'ٹرمپ انتظامیہ آنے کے بعد صورتِ حال واضح ہو گی'
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ جیک سلیوان کا یہ آخری غیر ملکی دورہ ہو۔ منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو حلف اٹھا رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ دیکھنا ہو گا کہ بائیڈن انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے جو بات کہی ہے ٹرمپ انتظامیہ اس کو آگے بڑھاتی ہے یا نہیں۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک بزنس مین ہیں وہ بھی اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانا چاہیں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کو معلوم ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس معاہدے کو حتمی شکل دے گی تو کیوں نہ اس کا آغاز کر دیا جائے۔ اب ڈیمو کریٹس نے معاہدے کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے، امید ہے ری پبلکن اس کو حتمی شکل دیں گے۔
ان کے مطابق جب مئی 2024 میں وزیرِ اعظم نریندر مودی امریکہ کے دورے پر گئے تھے تو فریقین نے ’انیشئٹیو آن کریٹیکل اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز‘ (آئی سی ای ٹی) کے تحت جو دفاعی معاہدہ کیا تھا اس کے تحت بھی مزید اقدامات کیے جائیں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جو بائیڈن نے جیک سلیوان کے ہاتھوں وزیرِ اعظم مودی کے لیے ایک خط بھی دیا ہے جس میں باہمی تعلقات کے استحکام کو یاد کیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ امریکہ پابندیوں کو ہٹا کر بھارتی جوہری اداروں اور امریکی کمپنیوں کے درمیان سول جوہری معاہدے کو رو بہ عمل لانا چاہتا ہے۔
کیا امریکہ دیگر بھارتی اداروں پر بھی پابندی ہٹا دے گا؟
ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں کہ امریکہ نے بھارت کے 200 جوہری اداروں پر جو پابندی لگائی تھی وہ رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی گئی اور اب صرف چار جوہری اداروں پر ہی پابندی باقی بچی ہے۔ اسی کو ہٹانے کی بات کی جا رہی ہے۔ جب تک یہ پابندی نہیں ہٹتی، سول جوہری معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔
نشریاتی ادارے نیوز 18 کے سنجے شری واستو کے مطابق پابندی ہٹنے سے بھارت میں امریکی جوہری کمپنیوں کا کاروبار بڑھے گا۔ اس کے علاوہ بھارت کے نجی اداروں اور سائنس دانوں کو امریکہ کے ساتھ گہرے تعاون کا موقع ملے گا۔ سمجھا جا رہا ہے کہ اس سے باہمی تعلقات اور مضبوط ہوں گے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق ڈاکٹر من موہن سنگھ کے زمانے میں جو معاہدہ ہوا تھا وہ 22 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے۔ معاہدے کے تحت امریکہ بھارت میں سول جوہری پلانٹ بنائے گا اور بھارت 2020 سے 2030 کے درمیان 20 ہزار میگا واٹ جوہری توانائی تیار کرے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس معاملے میں فریقین کے درمیان جو متنازع ایشوز رہے ہیں ان میں ایک بھارت کا ’لائبلٹی قانون‘ بھی ہے۔ جو غیر ملکی سپلائرز کے درمیان اندیشے پیدا کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی بھارت کے جوہری تعاون منصوبے کے عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں تاخیر ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ کسی حادثے کی صورت میں کون ذمہ دار ہو گا پلانٹ لگانے والا یا اسے آپریٹ کرنے والا، فریقین میں اس پر اختلاف ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت جوہری توانائی کے شعبے میں مسلسل بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنے میں فائدہ ہے۔ کیوں کہ اب توانائی سے لے کر خلا کے شعبے تک میں دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
اس وقت امریکہ بھارت میں بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اسی طرح بھارت بھی امریکہ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بعض تخمینوں کے مطابق امریکہ میں بھارتی سرمایہ کاری سے ملازمتوں کے چار لاکھ مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
لیکن ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں کہ امریکہ نے اپنا رخ اس لیے نرم کیا ہے تاکہ بھارت روس یا کسی اور ملک سے جوہری توانائی حاصل نہ کرے۔ امریکہ کے نزدیک اس معاہدے کو حتمی شکل دینے میں ہی اس کا فائدہ ہے۔ البتہ یہ دیکھنا ہو گا کہ اس میں کتنا وقت لگتا ہے۔
جیک سلیوان کی بھارتی وزیرِ اعظم سمیت دیگر حکام سے ملاقاتیں
قبل ازیں جیک سلیوان نے وزیرِ اعظم نریندر مودی، وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور اپنے ہم منصب اجیت ڈوول سے ملاقات کی۔
وائٹ ہاوس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جیک سلیوان نے اجیت ڈوول سے بات چیت کے دوران بھارت کے ساتھ خلائی تعاون کو فروغ دینے والی امریکہ کی میزائل ایکسپورٹ کنٹرول پالیسیوں کے بارے میں بریف کیا۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے بتایا کہ انھوں نے صدر بائیڈن کا ایک خط مودی کو دیا اور دونوں نے ٹیکنالوجی، دفاع، چپس اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس سمیت کئی امور پر تبادلہ خیال کیا۔
انھوں نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں بولتے ہوئے بھارت امریکہ تعلقات کے سلسلے میں بھی گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ انڈو پیسفک خطے کے تناظر میں دونوں ملکوں کے تعلقات کی اہمیت ہے۔
ان کے مطابق بھارت کے ساتھ امریکہ کے رشتے انڈو پیسفک میں امن و استحکام کے حوالے سے بھی بہت اہم ہیں۔ انھوں نے ابھرتے ہوئے عالمی چیلنجز بالخصوص چین کی سرگرمیوں کے تناظر میں اور کھلے اور آزاد خطے کے حوالے سے بھی گفتگو کی اور دونوں جمہوریتوں کے باہمی رشتوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
فورم