|
اسلام آباد -- منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن کے کچھ ارکان کے علاوہ باقی ساری نشستیں خالی تھیں۔
آدھا ایوان خالی خالی لگ رہا تھا۔ حکومتی بینچز پر ارکان معمول سے زیادہ لگ رہے تھے۔
تلاوت، ترانے اور نعت کے بعد جیسے ہی اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی تو تحریکِ انصاف کے علی محمد خان نے پوائنٹ آف آڈر پر بات کرنے کی اجازت مانگی۔
لگ رہا تھا کہ معمول کی طرح اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق علی محمد خان کو معمول کے بزنس کے بعد بات کرنے کی اجازت دینے کا کہیں گے۔ لیکن اسپیکر نے اُنہیں بات کرنے کی اجازت دے دی۔
علی محمد خان نے پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد گرفتار ہونے والے بیرسٹر گوہر خان اور شیر افضل مروت سمیت اسمبلی کے احاطے سے گرفتاریوں پر بات کی اور اس دوران وہ جذباتی بھی ہو گئے۔
علی محمد خان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کا تقدس پامال کرنے والوں پر آرٹیکل چھ لگنا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم اسرائیل میں نہیں بلکہ پاکستان میں رہتے ہیں۔ یہ صرف عمران خان کا نہیں بلکہ جمہوریت کا مقدمہ ہے۔
علی محمد خان کا کہنا تھا کہ پیر کو پاکستان کی جمہوریت کا 'نو مئی' تھا۔ اگر جناح ہاؤس پر حملہ پاکستان پر حملہ تھا تو کیا پارلیمنٹ پر حملہ پاکستان پر حملہ نہیں ہے؟
علی محمد خان کی تقریر کے بعد اسپیکر کی جانب سے اپوزیشن کے ایک دوسرے رکن کو بھی بولنے کا موقع دینے سے لگا کہ اسپیکر کو اندازہ ہے کہ کل رات جو کچھ ہوا ہے وہ کتنا غیر معمولی واقعہ تھا۔
سنی اتحاد کونسل کے رکن صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا تھا کہ کل رات میں اپنے ساتھیوں کے لیے یہاں پر آیا تھا۔ رات کو تین بج کر 16منٹ پر قومی اسمبلی میں نقاب پوش افراد داخل ہوئے۔ پارلیمنٹ کی بجلی بجھا دی گئی اور ٹارچز روشن کی گئیں ٹیمیں بنا کر ہر فلور کی تلاشی لی گئی۔
نقاب پوش اہلکار ارکان قومی اسمبلی عامر ڈوگر، زین قریشی، شیخ وقاص اکرم، نسیم شاہ اور دیگر کو پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتار کر کے لے گئے۔ احمد چٹھہ اور اویس جھکڑ کا پتا نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ بیرسٹر گوہر کو کالر سے پکڑ کر گرفتار کیا گیا۔
محمود اچکزئی بولے کہ بینظیر اور میاں نواز شریف نے ہمیشہ جمہوریت کی بات کی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے معاہدہ کیا مگر پیر کو پارلیمنٹ کی بے توقیری کی گئی۔
اس دوران پیپلزپارٹی کے سید نوید قمر بولے کہ جو الزامات سامنے آ رہے ہیں، ان پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ پارلیمنٹ پر حملہ ہے۔
پارلیمنٹ کے گیٹ کے اندر اراکین کو گرفتار کیا جاتا ہے تو باقی کیا بچتا ہے۔ اسپیکر صاحب آپ کو سنجیدہ انکوائری کر کے کاروائی کرنا پڑے گی۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر جماعتوں کے قائدین نے بھی پیر کو ہونے والے واقعات پر تحفطات کا اظہار کیا۔
وفاقی وزیر رانا تنویر بولے کہ جب ہم چیخ چیخ کر کہتے تھے کہ پارلیمنٹ پر حملے نہ کریں تو اس وقت ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ہم کہتے تھے کہ ہماری بہن بیٹیوں کے لیے ہوٹلوں کے دروازے نہ توڑیں۔
رانا تنویر حسین نے علی محمد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی موقع ہے اپنے لوگوں کو سمجھائیں۔ اختلافِ رائے یہ نہیں کہ میں نہیں تو پھر پاکستان بھی نہیں۔
خواجہ آصف کی تقریر کے دوران ایوان میں ہنگامہ آرائی
وزیر دفاع خواجہ آصف جب بھی تقریر کرتے ہیں تو اپوزیشن شور شرابہ کرتی ہے منگل کو بھی جب خواجہ آصف نے تقریر کی تو علی محمد خان نے ان کی تقریر کے درمیان میں رکاوٹ ڈالی جس پر علی محمد خان اور خواجہ آصف کے درمیان سخت تلخ کلامی ہوئی۔
اسپیکر ایاز صادق نے بھی پارلیمنٹ ہاؤس سے اراکین کی گرفتاری پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس معاملے پر اسٹینڈ لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ خود کو اس اعتبار سے بدقسمت سمجھتے ہیں کہ ان کی اسپیکرشپ کے دوران پارلیمنٹ پر ماضی میں دو حملے ہو چکے ہیں۔ کل کے واقعے پر کارروائی ہو گی اور خاموشی سے نہیں بیٹھیں گے۔
پی ٹی آئی ارکان کی گرفتاری کے معاملے پر سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے مسئلہ اٹھایا اور اس کے بعد فیصل واڈا نے تقریر کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس دوران اپوزیشن کی سینیٹر فلک ناز نے غیر مناسب الفاظ استعمال کیے جس پر فیصل واڈا نے کارروائی کا مطالبہ کیا۔ چیئرمین نے فلک ناز کو معذرت کرنے کا موقع دیا مگر انہوں نے معذرت نہیں کی تو چیئرمین سینیٹ نے فلک ناز کی دو دن کے لیے رکنیت معطل کر دی۔
فورم