|
نیویارک میں قائم کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطینیوں کی حمایت میں کئی مہینوں سے جاری مظاہروں کا سلسلہ جمعرات 18 اپریل کو اس وقت اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا جب پویس نے کارروائی کرتے ہوئے 100 سے زیادہ طالب علموں کو گرفتار کر لیا۔
یونیورسٹی کے طالب علم 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے جواب میں غزہ پر اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے خلاف مہینوں سے احتجاج کر رہے تھے۔ غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں 33 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر بچے اور عورتیں ہیں۔
ان گرفتاریوں کی اجازت یونیورسٹی کی صدر نعمت مینوش شفیق نے دی تھی۔ اس سے ایک روز قبل انہوں نے امریکی نمائندگان کی سماعت میں کولمبیا یونیورسٹی میں صہونیت مخالف تحریک سے نمٹنے میں یونیورسٹی کے ردعمل پر اپنی گواہی دی تھی۔
جب یونیورسٹی کیمپس میں گرفتاریاں شروع ہوئیں تو مینوش شفیق نے یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس، پروفیسرز اور عملے کو ایک ای میل بھیجی جس میں کہا گیا تھا کہ میں نے یہ غیر معمولی قدم، غیر معمولی حالات کی وجہ سے اٹھایا ہے۔
اس سے پہلے بدھ کی صبح، خود کو نسلی تعصب کا مخالف کہنے والے طالب علموں نے یونیورسٹی کے مرکزی حصے کے سبزہ زار میں درجنوں خیمے نصب کر کے وہاں ایک بینر لگا دیا جس پر لکھا تھا کہ ’غزہ یکجہتی کیمپ‘۔
طالب علموں نے اپنے گروپ کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر مطالبات بھی پوسٹ کیے، جن میں کولمبیا یونیورسٹی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان کمپنیوں اور اداروں سے الگ ہو جائے جو فلسطینی علاقوں میں اسرائیلیوں کی جانب سے، قتل عام اور قبضے کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک کیمپ میں ہی رہیں گے جب تک ان کے تمام مطالبات پورے نہیں ہو جاتے۔
یونیورسٹی کی سربراہ مینوش شفیق کا کہنا ہے کہ مظاہرہ اور احتجاج کرنے والوں کو کئی بار انتباہ کیا گیا کہ وہ یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور انہیں منتشر ہو جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسٹوڈنٹس کو یہ بھی بتایا گیا کہ احتجاجی کیمپ میں موجود تمام طلبہ کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ وہ معطل کیے جا چکے ہیں اور اس وقت کیمپ میں موجود طالب علموں کے پاس یونیورسٹی کے احاطے میں موجود رہنے کا اختیار نہیں رہا اور ان کی حیثیت ناجائز قابضین کی ہے۔
نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اہل کار جمعرات کی دوپہر یونیورسٹی کمیپس پہنچے اور انہوں نے احتجاج میں شریک اسٹوڈنٹس کو گرفتار کر کے ہتھکڑیاں لگائیں اور پھر بسوں کے ذریعے انہیں پولیس اسٹیشن پہنچا دیا۔
پولیس کے ایک عہدے دار کیپٹن جیکلن کین نے بعد ازاں ایک نیوز کانفرنس میں طالب علموں کی گرفتاری کی تصدیق کی۔ 108 طالب علموں پر یونیورسٹی کے احاطے پر ناجائز قبضے کی دفعات لگائی گئیں جب کہ دو طالب علموں پر کار سرکار میں رکاوٹیں ڈالنے کی اضافی دفعات بھی شامل کیں گئیں۔
گزشتہ 50 سال کے عرصے میں یہ کولمبیا یونیورسٹی کیمپس میں طالب علموں کی پہلی بڑی گرفتاری تھی۔
غزہ یکجہتی کیمپ کے حامیوں نے گرفتاریوں کے بعد مشرقی سبزہ زار میں اکھٹے ہو کر انتظامیہ اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس کے بعد وہ مغربی لان میں چلے گئے جہاں کئی اہم شخصیات بھی آ گئیں جن میں فلسطینی مصنف اور شاعر محمد ال کرد اور امریکی آزاد صدارتی امیدوار اور کولمبیا کےفیکلٹی ممبر کارنل ویسٹ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر تقریریں بھی کیں۔
کارنل ویسٹ کا کہنا تھا، "ہم یونانی فلاسفر سوفوکلس کو پڑھ سکتے ہیں، کارل مارکس کو پڑھ سکتے ہیں، مارٹن لوتھر کنگ کو پڑھ سکتے ہیں، لیکن جب نسل کشی کے خلاف موقف اختیار کرنے کا وقت آئے تو ایسا نہیں کر سکتے۔"
جمعرات کی شام مظاہرین یونیورسٹی کے مغربی لان میں اکھٹے ہوئے اور کئی ایک وہاں رات گزارنے کے لیے خیمے بھی اپنے ساتھ لائے۔ جب کہ کیمپس کے باہر ان کے حامیوں نے جلوس نکالا اور کیمپس کے اندر موجود مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
یونیورسٹی کیمپس میں ہونے والے یہ واقعات اسرائیل غزہ جنگ کے بارے میں امریکی طالب علموں کی سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔ حال ہی میں ہاروڈ یونیورسٹی کے صدر کلاڈین گے اور یونیورسٹی آف پنسلوانیا کی صدر لز میگل نے اس سال کے آغاز کے موقع پر ہایوان کی ایجوکیشن کی ذیلی کمیٹی کے سامنے اپنے بیانات پر ردعمل میں استعفے دے دیے تھے۔
امریکی ایوان کی کمیٹی برائے تعلیم اور افرادی قوت کی چیئر وومن ورجینا فاکس نے جمعرات کو کولمیبا یونیورسٹی میں طالب علموں کی گرفتاریوں کی حمایت میں ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی کو بڑے پیمانے کی یہود دشمنی، دہشت گردی کی حمایت، اور توہین آمیز سلوک سے نمٹنے کے لیے ضروری جرات مندانہ اور مشکل اقدامات کرنے چاہییں۔
(کلیئر شلوٹربیک، وی او اے نیوز)
فورم