پچھلے ساڑھے تین برسوں میں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کسی بین الاقوامی فورم پر " ایکسٹمپور" مطلب’’ منہ زبانی ‘‘ یا فی البدیہہ تقریر کی اور جو چیز سرخی بنی، وہ موضوع سے ہٹ کر ان کے کہے گئے جملے یا ریمارکس تھے جو میڈیا کا موضوع بنے اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتے رہے۔
ابتدائی دنوں میں جاپان اور جرمنی کو پڑوسی گرداننے سے لے کر افغان خواتین کی تعلیم اور حقوق کے بارے میں ان کے تازہ ترین وہ ریمارکس تھے، جو اسلامی ممالک کی تنطیم (او آئی سی) کے اسلام آباد کے اجلاس اور اس کے مقصد سے بھی بڑی خبر بن گئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مباحث کا موضوع یہ ریمارکس بنے۔
'ایبسولوٹلی ناٹ' (Absolutely Not) جیسے کمنٹس کو بھی ان کے مداحوں نے ملک کے اندر سراہا لیکن سفارت کاری کی اہمیت کو سمجھنے والوں نے کہا کہ ایک عام آدمی کی ’نہ‘ اور سٹیٹسمین کی ’نہ‘ میں انداز کا فرق ہونا چاہیے تھا۔ اور امریکہ جیسے طاقتور اتحادی ملک کے بارے میں گفتگو میں احتیاط کے تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ تازہ ترین انٹرویو میں بھی وزیراعظم نے جب امریکہ کو افغانستان کے اندر موجودہ انسانی بحران کا ذمہ دار قرار دیا تو اس بیان کو بھی نقادوں نے’ بے احتیاطی‘ قرار دیا ہے۔
ایک حکومت یا ریاست کے ذمہ دار کی حیثیت سے کسی راہنما کا اپنے خیالات کے اظہار میں ربط برقرار رکھنا اور منتشرالخیالی کے اظہار سے گریز کتنا ضروری ہے؟ ایک راہنما کے لیے قومی یا بین الاقوامی معاملات پر ’ پالیسی سٹیمٹمنٹ‘ دیتے وقت لکھے ہوئے بیان یا اسکرپٹ کے مطابق چلنا کیا لیڈر کی ’نا اہلی‘ ہے یا ذمہ داری کا تقاضا؟ ان سوالات پر وائس آف امریکہ نے سیاسی رہنماوں اور ماہرین سے ان کی رائے لی اور یہ بھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ ابلاغ اور سیاسیات کے علوم میں ’ بات کہنے کے ہنر‘ کی کیا اہمیت ہے۔
احسن اقبال، پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینئر راہ نما ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی "منتشرالخیالی" ملک اور ریاست کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
’’ عمران خان کی منتشرالخیالی ملک کو سفارتی سطح پر بہت نقصان پہنچا چکی۔ پاکستان کے تشخص کو بری طرح بگاڑ چکی ہے۔ ان کے ذہن میں ڈی چوک کی تقریریں ہیں جو وہ ملک کے اندر بھی کرتے ہیں اور ملک سے باہر بھی‘‘
احسن اقبال کی پارٹی کے قائد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پر تنقید ہوتی تھی اور اس تنقید میں موجودہ وزیراعظم بھی کھل کر حصہ ڈالتے تھے کہ نواز شریف ’ پرچی‘ کے علاوہ بول نہیں سکتے۔ کچھ نقاد ان کو ’خراب انگریزی‘ کا طعنہ دیتے تھے۔
فواد حسین چوہدری، پاکستان کے وزیر برائے اطلاعات و نشریات ہیں۔ وہ خود ٹیلی ویژن پروگراموں کے میزبان اور ’ان ہاؤس‘ ایکسپرٹ رہ چکے ہیں۔ چونکہ وکالت کی سند بھی رکھتے ہیں اور کھل کر بات کرنے کے ساتھ اشاروں کنایوں میں گفتگو کرنے کا ہنر جانتے ہیں تو ان کو ابلاغ کی باریکیوں سے واقف شخصیت خیال کیا جاتا ہے۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں وہ وزیراعظم عمران خان کے فی البدیہہ بات کرنے کو غلط نہیں سمجھتے اور ان کے خیال خواتین کے حقوق سے متعلق عمران خان کے ریمارکس بھی غیر ذمہ دارانہ یا احساسات سے عاری نہیں تھے، اس کا ایک پس منظر تھا۔
’’ کوئی انسینسیٹو (Insensitive) ریمارکس نہیں تھے۔ صحیح بات انہوں نے کہی ہے کہ ہر ایک کا اپنا کلچر ہوتا ہے۔ اس کی حساسیت کو سامنے رکھ کر ہی آپ چل سکتے ہیں‘‘
فواد چوہدری کہتے ہیں کہ یہ کسی بھی راہ نما کا انتخاب ہے کہ وہ لکھی ہوئی تقریر کریں یا فی البدیہہ تقریر کو ترجیح دیں۔
’’ دیکھیے۔ ونسٹن چرچل بھی لکھی ہوئی تقریر نہیں پڑھتے تھے، برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم اور ایک سابق وزیراعظم، جو اب تعلیم کے شعبے کے سربراہ ہیں، وہ بھی لکھی ہوئی تقریر نہیں پڑھتے تھے۔۔۔ عمران خان ہوں، برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن یا فی البدیہہ بات کرنے والے دنیا کے دیگر راہ نما ہوں، جب وہ بات کرتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ ان کے دل اور زبان میں فاصلہ نہیں ہے‘‘
یاد رہے کہ ونسٹن چرچل برطانیہ کے سابق وزیراعظم تھے۔ انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دنوں میں 1940 سے 1945 کے دوران ملک کی قیادت کی اور پھر 1951 سے 1955 کے دوران وزارت عظمی سنبھالی۔ ان کو نہ صرف زمانہ جنگ کے راہ نما کے طور پر یاد کیا جاتا ہے بلکہ ان کی شناخت ایک ایسے مصنف اور دانشور کے طور پر ہوتی ہے جنہیں ان کی تصانیف پر نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ وہ ایک مورخ بھی تھے اور برطانیہ کی شہرہ آفاق ’ سینڈہرسٹ‘ اکیڈیمی سے فارغ التحصیل فوجی بھی۔
احسن اقبال کہتے ہیں کہ عمران خان کا موازنہ ونسٹن چرچل کے ساتھ کرنا غیر مناسب ہے۔
’’ ونسٹن چرچل سے موازنہ تو ایک مذاق ہے۔ ونسٹن چرچل ایک ادبی شخصیت تھے اور ان کو ایک ایک لفظ پر عبور تھا۔ عمران خان منتشرالخیال شخصیت ہیں۔ ان کی جب منہ زبانی تقریر ہوتی ہے تو پرانی باتیں دوہرائی جاتی ہیں اور پھر لوگ ان کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ جب سربراہ مملکت کو لوگ سنجیدہ نہیں لیتے تو ملک کی سبکی ہوتی ہے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ تمام بڑے سربراہان مملکت بین الاقوامی فورمز پر لکھی ہوئی تقریر پڑھتے ہیں کیونکہ وہ پالیسی سٹیٹمنٹ دے رہے ہوتے ہیں‘‘
پروفیسر شیراز پراچہ مردان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاسی راہ نماوں کے لیے بالعموم اور سربراہان ملک کے لیے بالخصوص اپنے خیالات کے اظہار میں ربط اور ذمہ داری کے ساتھ بات کرنے کی بے حد اہمیت ہے۔
’ ایک سیاسی راہ نما اور سٹیٹسمین کو فن تقریر کا اچھا ماہر(Orator) ہونا چاہیے۔ وہ ضرور زبانی تقریر کر سکتا ہے اور کبھی کبھی کرنی بھی چاہیے لیکن جہاں تاریخ کے حوالے دینا ہوں، کسی قوم یا کمیونٹی کے کلچر پر بات کرنا ہو تو ان کو علم ہونا چاہیے کہ اس کی حساسیت کیا ہے اور وہ کس فورم پر بات کر رہے ہیں‘‘
وزیراعظم عمران خان کے متنازعہ یا غیر حساس سمجھے جانے والے بیانات کے حوالے سے پروفیسر شیراز پراچہ کہتے ہیں۔
’’ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ خود سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ جو وہ کہہ رہے ہیں، وہ حرف آخر ہے اور ان کی تقاریر میں ’’ میں ‘‘ کی تکرار بہت ہوتی ہے۔ وہ اپنی ذات، تجربات اور مشاہدات کو جب بیان کرتے ہیں تو باور یوں کراتے ہیں کہ وہ جیسے مسلمہ اجتماعی سوچ ہو۔ اس سبب ان کے کئی بیانات موضوع گفتگو بنتے ہیں اور ان پر تنقید ہوتی ہے۔‘‘
دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹییز میں پولیٹیکل کمیونی کیشن بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے۔یہ مضمون ’ علم سیاسیات‘ کی ایک ذیلی شاخ کے طور پر لیا جاتا ہے جس میں معلومات کے پھیلاؤ، سیاست پر کمیونی کیشن کے اثرات کا جائزہ لینا سکھایا جاتا ہے۔
پروفیسر پراچہ یاد کرتے ہیں کہ برطانیہ کے سابق وزیراعطم ٹونی بلیئر بہت اچھے مقرر تھے لیکن اس کے باوجود وہ کبھی تیاری کے بغیر کسی موضوع پر بات نہیں کرتے تھے۔ جس موضوع پر ان کو بات کرنا ہوتی وہ پہلے اس شعبے کے ماہرین سے بات کرتے تھے۔ ان کے بقول جارج ڈبلیو بش کو اگرچہ کچھ لوگ ریاست ٹیکساس کے’ کاؤ بوائے‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن ان کے ایڈوائرز ان کے لباس سے لے کر ان کے تاثرات تک کا خیال رکھتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ لیڈرز اصطلاحات متعارف کراتے ہیں۔
’’ ونسٹن چرچل جب امریکہ کے دورے پر تھے تو انہوں نے ’ٓ آئرن کرٹن‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ بش نے برطانیہ کے ساتھ ’ شولڈر ٹو شولڈر‘ کھڑے ہونے کی اصطلاح استعمال کی۔ اسی طرح 'کولیٹرل ڈیمیج' جیسی اصطلاح لیڈروں سے آئی ہیں۔ یہ جو اصطلاحات ہیں، جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، ان کی ادائیگی سے پہلے ان پر بات ہوتی ہے اور لیڈر بہت سوچ سمجھ کر لفظ ادا کرتے ہیں۔‘‘
شیراز پراچہ کہتے ہیں کہ کسی واقعے پر بنا سوچے سمجھے ردعمل دینے میں بڑے سے بڑا افلاطون بھی غلطی کر سکتا ہے۔ ان کے بقول کبھی کبھی سخت لفظوں سے اپنا ردعمل ظاہر کرنا پڑتا ہے مگر ہر وقت نہیں۔
فاروق عادل پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور مصنف ہیں۔ اپنی ویب سائٹ اور برطانوی نشریاتی ادارے کے لیے لکھتے ہیں۔ صحافت کا مضمون پڑھاتے بھی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سابق صدر ممنون حسین کے میڈیا ایڈوائزر بھی رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہتے ہیں کہ عمران خان اپنی ’ زبان کے قیدی‘ بن گئے ہیں۔ وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو پرچی دیکھ کر بولنے کا طعنہ دیتے تھے اور اب ان کو اس چیز سے بچنے کے لیے لکھی ہوئی تقریر سے گریز کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ایک لیڈر یا سٹیٹسمین بین الاقوامی فورمز پر نپے تلے انداز میں، مربوط پیغام پہنچانے کے لیے نوٹس دیکھ کر پڑھے۔ اس کو سٹیٹ کرافٹ میں ٹاکنگ پوائنٹس کہتے ہیں، جن کا کسی پیپر پر درج ہونا کوئی غلط بات نہیں۔
’’ کسی ملک کی نمائندگی کرنا اور سربراہ مملکت کے طور پر بین الاقوامی برادری سے خطاب بڑے اعزاز کی بات ہے اور بڑی ذمہ داری کی بھی بات ہوتی ہے۔ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی راہ نما فی البدیہہ کوئی بات نہیں کرتے۔ وہ میڈیا ٹاک میں بھی بڑبولے پن کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی کسی لاعلمی یا ان کی زبان کی پھسلن کی وجہ سے ایسی بات ان کے منہ سے نکل جائے جن سے ان کے ملک کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے‘‘
فاروق عادل کے بقول ایوان صدر میں صدر ممنون حسین اور بیرون ممالک دوروں میں ان کو اور دنیا کے راہ نماؤں کو نہیں دیکھا کہ وہ ٹاکنگ پوائنٹس کے بغیر بات کرتے ہوں۔ ایسا کرنا تکبر بھی ہو سکتا ہے اور ان کے بقول حد سے زیادہ خود اعتمادی بھی ہو سکتی ہے اور نالائقی بھی۔
وہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے ٹاکنگ پوائٹس سے اجتناب کا جو راستہ اپنے دشمنوں کے لیے اختیار کیا تھا وہ خود اسی سے منفی طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔
راؤ خالد، سینئر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات، یا حساس معاملات پر گفتگو میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی قبیلے، ان کی ثفافت اور مذہب جیسے معاملات اور بالخصوص بین الاقوامی تعلقات پر گفتگو کے دوران بہت محتاط ہونا پڑتا ہے۔ اور ملک کے راہ نماؤں کو بالخصوص۔
’’ وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے اگر بات کہیں تو ان کو بہت مجبور کر کے ایک دو جگہوں پر تقریر کروائی گئی، وہ کرتے نہیں ہیں‘‘۔
راؤ خالد، عمران خان کو حوالہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصل میں عمران خان خود کہتے ہیں کہ ’’ان کو لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کے لیے موٹے چشمے کی عینک لگانا پڑتی ہے جس کے ساتھ وہ آسانی محسوس نہیں کرتے۔ اس لیے پوائنٹس سامنے رکھ کر تقریر کرتے ہیں‘‘۔
راؤ خالد سمجھتے ہیں کہ اس سے مسائل اور پیجیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے حالیہ بیان پر جب وہ افغانستان کے اندر بچیوں کی تعلیم اور حقوق کی بات کر رہے تھے تو اس پر افغانستان کے اندر سے سخت ردعمل آیا۔ کئی جگہوں پر مذاق بھی اڑایا گیا۔ بعض اوقات حقائق کے بیان میں بھی غلطی ہو جاتی ہے جیسے انہوں نے جاپان اور جرمنی سے متعلق بیان دے دیا تھا۔
’’ جب عمران خان ایشوز پر بات کرتے ہیں تو میرے خیال میں ان کے ذہن میں کلیئریٹی (واضح تصویر) ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ ایک دو جملے بول جاتے ہیں اور اس کا پورا پس منظر واضح نہیں کرتے تو اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں‘‘۔
راؤ خالد نے بتایا کہ اسلام آباد میں او آئی سی کے اجلاس سے پہلے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے سوال کیا گیا کہ امریکہ کے حوالے سے جو آپ بات کر رہے ہیں اور جو بات وزیراعظم عمران خان کرتے ہیں اس میں بڑا فرق ہے۔ اس طرح یہ سمجھنے میں دشواری ہے کہ پاکستان کس طرح امریکہ کے ساتھ چلنا چاہتا ہے۔ اس پر راؤ خالد کے بقول، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ جو دفتر خارجہ سے متعلق معاملات ہیں، خارجہ پالیسی سے متعلق معاملات پر دفتر خارجہ کو ہی بات کرنی چاہیے۔ راؤ خالد کے بقول اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وزیراعظم کے بیانات پر وزیرخارجہ بھی ان سے بار بار یہ بات کہہ چکے ہیں، میں یہی اخذ کرتا ہوں، لیکن وزیراعظم بعض اوقات جو جی میں آئے کہہ دیتے ہیں جس سے ملک کے لیے اور ان کے اپنے لیے شرمندگی کا سبب بنتا ہے۔
کیا وزیراعظم کے گوش گزار کیا جاتا ہے کہ پیغام میں کلئیریٹی یعنی پیغام کا واضح ہونا ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں وزیراطلاعات و نشریات فواد چوہدری کہتے ہیں۔
’’ سب سے پہلی کلیرئیٹی ایمانداری ہوتی ہے۔ اور لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران اپنے خیالات کے اظہار میں ایماندار ہیں۔ لہٰذا ایسا کوئی کلیہ نہیں بنایا جا سکتا کہ کیا ہونا چاہیے‘‘۔۔ فواد چوہدری کے بقول، ’اس بات کا انحصار راہ نماؤں کے اپنے انتخاب پر ہے۔ عمران خان زبانی تقریر پسند کرتے ہیں، کئی لوگوں کو ہو سکتا ہے، پسند نہ آئے لیکن اس کا فائدہ بھی ہے‘‘ ۔
فواد چوہدری اس تنقید کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ عمران خان کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہی امریکہ کے وزیر خارجہ نے پاکستان کے اندر او آئی سی کے انعقاد اور پاکستان کے موقف کی تعریف کی ہے۔
کیا تقریر یا گفتگو میں بے احتیاطی، ضرورت سے زیادہ احتیاط یا غلط سلط انگریزی جیسے معاملات میں نظر صرف عمران خان پر جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب تجزیہ کاروں کی نزدیک 'نہ' میں ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پر بین الاقوامی فورمز پر دو طرفہ گفتگو میں بھی بھی پرچی دیکھ کر پڑھنے پر تنقید ہوئی اور ایک اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اس وقت تنقید اور مذاق کا نشانہ بنے جب امریکہ کے دورے کے دوران امریکی صدر کے ہمراہ کھڑے ہو کر انہوں نے میڈیا سے گفتگو کی۔ اور اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان میں چند ’’ ہینڈ پکڈ‘ دہشت گرد ہیں۔ حالانکہ وہ کہنا ہینڈ فل چاہتے تھے۔ 'ہینڈ پکڈ' کا مطلب اپنے تیار کردہ اور 'ہینڈ فل' کا مطلب مٹھی بھر ہوتا ہے۔
پروفیسر شیراز پراچہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزیں بھی شرمندگی کا باعث بنتی ہیں اور جن لیڈروں کی انگریزی کمزور ہے، کوئی حرج نہیں کہ وہ دوسرے ملکوں کے راہ نماؤں کے ساتھ گفتگو میں یا عالمی فورمز پر خطاب میں مترجمین کی خدمات حاصل کریں۔ اس ضمن میں روس، چین اور یورپ کے کئی ممالک کے راہ نما مترجموں کی مدد لیتے ہیں۔
پولیٹیکل کمیونی کیشن یا سیاسی ابلاغ کے تقاضے اور امریکی راہ نما؟
امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما جب 2008 کی صدارتی مہم میں امریکی عوام کے سامنے آئے تو ان کے بارے میں تبصرہ نگاروں نے کہا کہ وہ ایک شاندار Orator یا مقرر ہیں۔ اور فن تقریر کی باریکیوں سے واقف ایک راہ نما ہیں۔
اویس سلیم پاکستان میں صحافت کرتے رہے ہیں لیکن آج کل امریکہ میں ابلاغ عامہ یا ماس کمیونی کیشن کا مضمون پڑھاتے ہیں۔ وہ جو نصاب پڑھاتے ہیں اس میں پبلک سپیکنگ کا کورس بھی شامل ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ابلاغ ایک فن ہے۔ یہ ایک پیدائشی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ لیکن اس پر فن کی دیگر اصناف کی طرح محنت کرنا پڑتی ہے اور اس کو نکھارنا پڑتا ہے۔
’’ صدر اوباما نے پوری انتخابی مہم اس بات پر استوار کی وہ اچھے مقرر ہیں، وہ اپنا ما فی الضمیر بیان کر سکتے ہیں۔ ان کے سننے والے ان کے الفاظ ، آواز اور انداز ادائیگی کے سحر میں مبتلا ہو جاتے تھے، اور اس چیز نے ان کو وائٹ ہاوس تک پہنچایا تھا۔‘‘
پولیٹیکل کمیونی کیشن میں کیا اہم ہوتا ہے؟
اویس سلیم کے مطابق، پبلک سپیکنگ میں ہم طلبا کو بتاتے ہیں کہ سمجھا تو یہ جاتا ہے کہ بولنے والا اہم ہوتا ہے۔ لیکن ہم بتاتے ہیں کہ سننے والا بھی اہم ہوتا ہے۔ کیا آپ پیغام ایسے ’ان کوڈ‘ کر رہے ہیں کہ سننے والا اس کو اسی طرحِ’ ڈی کوڈ‘ کرے جس طرح آپ چاہتے ہیں؟بجائے اس کے کہ بعد میں وضاحتیں دی جائیں کہ مطلب یہ نہیں تھا، مطلب وہ نہیں تھا۔
اویس سلیم کہتے ہیں کہ وائس پرفارمنس یا پیغام پہنچانے کے لئے استعمال کئے گئے الفاظ اور ان کی ادائیگی کمیونی کیشن یا ابلاغ کا وہ طریقہ ہے جو ہم عوام کے سامنے کر رہے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے الفاظ کے چناو، ادائیگی، لہجے، پچ، الفاظ کے زیروبم، کہاں زور دینا ہے، کہاں توقف کرنا ہے (پاز اینڈ سٹاپ) سب چیزوں کا خیال کیا جاتا ہے۔ کون سے الفاظ بار بار دوہرانے ہیں کہ سننے والے کے ذہن میں پیغام راسخ ہو جائے۔
’ جب ہم بغیر تیاری کے بول رہے ہوتے ہیں، تو انسانی طور پر یہ ممکن نہیں کہ آپ کے دماغ میں جو چیز ہے، آپ اس کے بارے میں بیک وقت سوچ بھی رہے ہوں اور بول بھی رہے ہوں۔ اس سارے عمل میں جب ڈس کنیکٹ ہوتا ہے تو ایسے الفاظ منہ سے نکل جاتے ہیں جن کا بولنا آپ کا مقصد بھی نہیں ہوتا‘۔
اویس سلیم کے مطابق سٹیٹ کرافٹ یا ڈپلومیسی میں ایک ایک لفظ سوچ سوچ کر ادا کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے کئی مطلب نکالے جا سکتے ہیں۔ پوری دنیا میں جب لیڈرز تقریر کرتے ہیں تو وہ پہلے خوب تیاری کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک ٹیم ہوتی ہے۔ تقریر کے ایک ایک لفظ پر غور ہوتا ہے۔ اور پھر اس کی ریہرسل کی جاتی ہے اور سننے والے بھی اپنی رائے دیتے ہیں کہ انہوں نے تقریر کو کس طرح سنا یا ان کے ذہن میں سنتے ہوئے کیا سوالات پیدا ہوئے؟
تاہم اویس سلیم یہ بھی کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہر بار مکمل طور پر لکھی ہوئی تحریر پڑھی جائے۔ ہم پبلک سپیکنگ پڑھاتے ہوئے طلبا کو بتاتے ہیں کہ آپ ایک لیڈر ہوتے ہوئے یہ نہیں کر سکتے کہ آپ ایک پرچہ سامنے رکھ کر پڑھ رہے ہوں۔ اس سے بھی ایک برا تاثر جاتا ہے، اس کے لیے آپ کو تقریر کی ریہرسل کرنا پڑتی ہے۔ بعض الفاظ کو بار بار اپنے دماغ اور لا شعور میں بٹھانا پڑتا ہے۔ آپ نوٹس سامنے رکھ سکتے ہیں یا ٹیلی پرامپٹر کی مدد لے سکتے ہیں۔ (ٹیلی پرامپٹر وہ اسکرین ہے جو لیڈر کے سامنے ہوتی ہے اور اس پر نوٹس یا پورا سکرپٹ ہوتا ہے، اس سکرین کے پیچھے کیمرہ ہوتا ہے اور جب کوئی نیوز اینکر یا لیڈر اس کو دیکھ کر پڑھ رہا ہوتا ہے تو دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ وہ اس کو دیکھ رہا ہے، کسی سکرپٹ کو نہیں)