امریکہ اور اُردن کے چوٹی کے سفارت کاروں نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی فوری اہمیت کی ضرورت ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن اور اُردن کے وزیرِ خارجہ ناصر جُودہ نے جمعے کے روز واشنگٹن میں اس مسئلے پر غور و خوض کیا۔
بعد میں دونوں سفارت کاروں نے 1967ء کی سرحدوں کی بنیاد پر برابر برابر دو ملکوں کے جامع حل کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا ہے کہ قیامِ امن کے کسی معاہدے میں فلسطینی پناہ گزینوں کے مستقبل، یروشلم کے مستقبل اور اسرائیل کی سلامتی پر بھی توجہ دی جانی چائیے۔
ہلری کلنٹن جمعے کے روز ہی مصر کے وزیرِ خارجہ احمد ابو الغیث اور مصر کی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ عمر سلیمان سے بھی ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
یہ مذاکرات امریکہ کے زیرِ قیادت اُن کوششوں کا ایک حصّہ ہیں، جن کا مقصدمشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے معطل عمل میں از سرِ نو جان ڈالنا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکہ کے ایلچی جارج مچل کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فلسطینی مذاکرات کے نتیجے میں دو سال کے اندر اندر معاہدہ طے ہوجانا چاہئیے۔
مچل آنے والے دنوں میں یورپ اور مشرقِ وسطیٰ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جہاں وہ شرائط مقرر کرنے اور مذاکرات کی پُشت پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے کام کریں گے۔
اسرائیلی فلسطینی امن مذاکرات مہینوں سے تعطل میں پڑے ہوئے ہیں اور اس کی ایک وجہ مغربی کنارے کے علاقے میں اسرائیل کی جانب سے یہودی آباکاروں کی بستیوں کی تعمیر پر جاری تنازعہ ہے۔