رواں برس پاکستان کے تقریباً ہر بڑے شہر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی گئی۔ اس جنگ کے عوض ملک کے چاروں صوبوں کے9 شہروں کو47 بم دھماکے، خودکش حملے اور دہشت گردی کے دیگر واقعات برداشت کرنا پڑے۔ ان واقعات میں مجموعی طور پر ایک ہزار2 6 افراد جاں بحق اور دو ہزار ایک سو اکیاو ن زخمی ہوئے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ ، شہر لاہور اور مہینہ دسمبر خونریز ثابت ہوا ۔ خیبر پختونخواہ میں سترہ دھماکے ہوئے جس میں 467 افراد کو لقمہ اجل بنایا گیا ۔ دارلحکومت پشاور کو سب سے زیادہ 6 مرتبہ نشانہ بنایا گیا جس میں 156 معصوم جانوں کا ضیاع ہوا ۔
لکی مروت میں ایک دھماکے میں 105، کوہاٹ میں تین دھماکوں میں 47،لوئر دیر میں دودھماکوں میں 106، سوات میں ایک دھماکے میں 10، ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک دھماکے میں 12، بنوں میں ایک دھماکے میں 6، ہنگو میں ایک دھماکے میں 17اور نوشہرہ میں ایک دھماکے میں 8 افراد جاں بحق ہوئے ۔
دو ہزار دس میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب پر 9 بار وار کیا گیا جس میں سے 8 وار زندہ دلان لاہور کو جھیلنے پڑے اور 248 افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ اس کے علاوہ پاک پتن میں ایک دھماکے میں 6 افراد کو ابدی نیند سلا دیا گیا ۔
صوبہ سندھ میں صرف ملک کے تجارتی حب میں 5بار خود کش و بم حملے کیے گئے جن میں 54 افراد اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ کو دو بار خود کش حملوں کا نشانہ بنایا گیا جس میں 65 افراد موت کی وادیوں میں گم ہو گئے ۔
اسلام آباد میں دو دھماکوں میں تیرہ افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا ۔
جنوبی اور شمالی وزیرستان میں ایک، ایک دھماکا کیا گیا۔ جنوبی وزیرستان میں ہونے والے دھماکے میں 24 جبکہ شمالی وزیرستان میں ہونے والے دھماکے میں7 افرادجاں بحق ہوئے ۔
اورکزئی ایجنسی میں ایک دھماکے میں 18، باجوڑ ایجنسی میں دو دھماکوں میں 63، خیبر ایجنسی میں چار دھماکوں میں 44، کرم ایجنسی میں چار دھماکوں میں 46 اورمہمند ایجنسی میں تین دھماکوں میں 140افراد لقمہ اجل بنے ۔
جنوری میں تین، فروری میں پانچ، مارچ میں پانچ، اپریل میں پانچ، مئی میں تین، جولائی میں پانچ، اگست میں تین، ستمبر میں چھ، اکتوبر میں دو، نومبر میں چار اور دسمبر میں سات دھماکے ہوئے ۔ صرف جون کا مہینہ ایسا تھا جس میں کوئی دھماکا نہیں ہوا۔