جمعہ کے روز سے ویت نام کے شہر ہنوئی میں سالانہ آسیان کانفرنس شروع ہورہی ہے، جس میں 26 ملکوں اور یورپی یونین کے نمائندے شرکت کریں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ نیشنز کے اس علاقائی فورم میں سلامتی، برما میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور شمالی کوریا کی مبینہ جارحیت سمیت کئی موضوعات زیر بحث آنے کی توقع ہے۔
برما جو آسیان کا ایک رکن ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور 20 برس میں پہلی بار اس سال انتخابات منعقد کرانے کی بنا پرشدید نکتہ چینی کی زد میں ہے۔
برما کی زیر حراست جمہوریت نواز راہنما آنگ ساں سوچی پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہے، جس کا مقصد نقادوں کے بقول فوج کو مسلسل اقتدار میں رکھنا ہے۔
شمالی کوریا ، اس سال مارچ میں جنوبی کوریا کے اس بحری جنگی جہاز کے ڈوبنے کے واقعہ کی بنا پر، جس میں 46 فوجی ہلاک ہوگئے تھے، فورم سے سفارتی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہاہے۔ واشنگٹن اور سیؤل کا کہنا ہے کہ شمالی کوریانے بحری جہاز کو تارپیڈو سے غرق کیاتھا۔ دونوں ممالک اس ہفتے کے آخر میں طاقت کے ایک مظاہرے کے طورپر فوجی مشقیں کررہے ہیں۔
پیانگ یانگ جنوبی کوریا کے بحری جہاز کے ڈوبنے کے واقعے میں کسی بھی طرح ملوث ہونے سے انکار کرتا ہے۔
فورم میں شمالی کوریا کے ایک ترجمان نے واشنگٹن کو انتباہ کیا اگروہ جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک دیکھنا چاہتا ہے تو یہ مشقیں منسوخ کردے۔
امریکی وزیر خارجہ فورم میں شرکت کررہی ہیں۔جمعرات کے روز انہوں نے آسیان کے وزرا کو بتایا کہ امریکہ کا مستقبل ایشیا پیسفک کے ساتھ گہرے انداز میں جڑا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ پیسفک کا ایک ملک ہے اور ہم آسیان اور آپ کے ساتھ ایک فعال شراکت دار کے طورپر وابستہ ہیں۔ ہماری شراکت داری مشترکہ مفاد پرمبنی ہے۔ ہم جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کو مسلسل مضبوط ، خود مختار رہنے اور امن و استحکام، خوش حالی اور عالمگیر انسانی حقوق سے بہرہ ور ہونے میں مدد کے عہد سے وابستہ ہیں۔
امریکہ صدر اوباما کی قیادت میں جنوب مشرقی ایشیا میں پہلے سے زیادہ فعال ہوچکاہے اور اس نےاقتصادی پابندیاں برقرار رکھتے ہوئے برما کے ساتھ رابطے رکھنے کی پالیسی شروع کردی ہے۔
مز کلنٹن نے بدھ کے روز پیانگ یانگ کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کیا اور جمعرات کے روز امریکی قانون سازوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنا پر برما کے خلاف نئی پابندیوں کے حق میں ووٹ دیا۔