افغان صدر اشرف غنی ،افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے انعقاد کی ایک نئی کوشش کر رہے ہیں ۔ ماہرین غنی کے اقدام کا خیر مقدم کر رہے ہیں لیکن انہیں ابھی تک اس بارے میں شک ہے کہ اس سے طالبان کے رویے میں تبدیلی آئے گی۔
کابل میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں صدر غنی نے افغان طالبان کواس شرط پر ایک سیاسی پارٹی بنانے کے قانونی جواز کی پیش کش کی اگر وہ تشدد کی مذمت کرتے ہیں ۔ أفغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے کہا کہ طالبان کی قیادت اور تمام طالبان ، آج یہ آپ کا فیصلہ ہے کہ آپ امن کو وقار کے ساتھ قبول کریں اور آیئے ہم مل کر اس سرزمین کو محفوظ اور خوشحال بنائیں۔
ماہرین نے غنی کے اس اقدام کو سراہا لیکن کہا کہ انہیں اس بارے میں شک ہے کہ شورش پسند مذاکرات کی پیش کش قبول کریں گے۔
جنوبی ایشیا کے أمور سےمتعلق ایک ماہر جہانگیر خٹک کہتے ہیں کہ طالبان کا خیال ہے کہ افغان حکومت کے پاس اختیار نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ أفغانستان میں امن کے قیام کے لیے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔
طالبان کے دور حکومت میں پاکستان کےلیے افغانستان کے سفیر ملا عبد السلام ضعیف کہتے ہیں کہ امن مذاکرات کےلیے ابھی تک کلیدی مسئلہ أفغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی ہے ۔ ماضی میں طالبان نے کہا تھا کہ کوئی بھی امن مذاکرات اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتے جب تک غیر ملکی فوجی ملک میں موجود ہیں۔
ملا عبدالسلام ضعیف کا کہنا ہے کہ ہر افغان زندگی کا بنیادی حق رکھتا ہے اور بیشتر طالبان جو لڑ رہےہیں ان حقوق سے محروم ہو چکے ہیں ۔ وہ افغانستان میں امریکی موجودگی کی وجہ سے خود کو اور دوسروں کو مسلسل ہلاک کر رہے ہیں۔
طالبان نے ابھی تک مسٹر غنی کی پیش کش کا سرکاری طور پر جو اب نہیں دیا ہے۔ لیکن عسکریت پسندوں نے نیو یارکر میگزین میں ایک سابق امریکی سفارت کار اور افغان تجزیہ کاربیرنیٹ روبن کے ایک کھلے خط کا جواب ضرور دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرنیٹ روبن نے غنی کی پیش کش کا خیر مقدم کیا ۔سینٹر آن انٹر نیشنل کو آپریشن میں أفغانستان اور پاکستان کے علاقائی پروگرام کے ڈائریکٹربیرنیٹ روبن نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ ایک بہت اچھی پیش کش ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ یہ ہی پیش کش کر سکتے تھے ۔طالبان کی نقطہ نظر سے اس میں مسئلہ یہ ہے کہ مسٹر غنی انہیں أفغانستان میں امریکی فورسز کی موجودگی کے بارے میں کوئی با معنی پیش کش نہیں کر سکتے کیوں یہ معاملہ ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔
روبن نے کہا کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ طالبان کو مذاکرات میں شرکت کی حوصلہ افزائی کرے ۔پاکستان نے کہا تھا کہ امریکی حکومت اور افغان حکومت کو چاہئے کہ وہ طالبان کو ایک بہت سنجیدہ پیش کش کریں اور پھر وہ طالبان پر یہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے کہ وہ آئیں اور اس پیش کش پر بات چیت کریں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے جمعرات کے روز غنی کی تجویز کی تائید کی اور کہا کہ ان کا ملک مذاکرات میں مدد کے لیے تیار ہے۔
چین نے بھی امن مذاکرات کے لیے اپنی مدد کی پیش کش کی ہے ۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونیانگ کے کہا کہ ان کے ملک نے ہمیشہ أفغان قیادت اور أفغانوں کے اپنے مصالحتی عمل کی تائید کی ہے۔