رسائی کے لنکس

ایشیائی کرنسیوں کی قدر میں اضافہ باعث پریشانی


ایشیائی کرنسیوں کی قدر میں اضافہ باعث پریشانی
ایشیائی کرنسیوں کی قدر میں اضافہ باعث پریشانی

زیادہ تر ایشیائی معیشتیں 2008 میں آنے والے عالمی مالیاتی بحران کے بعد زیادہ مضبوط ہوکر ابھری ہیں۔جس کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں ان کی کرنسیوں کی قدر میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، لیکن ان ممالک کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرنسی کی قدر بڑھنے سے ان کی برآمدات پر منفی اثر پڑ رہاہے اور ان کا منافع کم ہوتا جارہاہے۔

حالیہ کچھ عرصے میں ڈالر کے مقابلے میں کئی ایشیائی کرنسیوں کی قدر میں اضافہ ہورہا ہے۔ جس سے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ ایشیائی کرنسیوں کی قدر میں اضافے سے علاقے کی برآمدت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں مسابقت کے باعث کمپنیوں کو اپنے منافعوں میں کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اس سال کے آغاز سے ہی ڈالر کے مقابلے میں ایشیائی کرنسیوں کی قدر میں اضافہ ہورہاہے۔

جاپانی ین، ملائیشیا کا رنگٹ، تھائی لینڈ کا بھات ، انڈونیشیا کا روپیہ اور سنگار پور کا ڈالر ان دوسری کرنسیوں میں شامل ہیں جن کی قدر ڈالر کے مقابلے میں تین سے آٹھ فی صد تک بڑھ چکی ہے۔

زیادہ تر ایشیائی معیشتیں 2008 میں آنے والے عالمی مالیاتی بحران کے بعد زیادہ مضبوط ہوکر ابھری ہیں۔ دوسری جانب اہم ترقی یافتہ معیشتیں ، جن میں امریکہ بھی شامل ہے، ابھی تک بحالی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

جنوب مشرقی ایشیا میں ، بالخصوص سرمایہ کاری ہورہی ہے اور پیداوار بڑھ رہی ہے۔

لیکن ماہرین اقتصادیات اور صنعتی شعبے نے خبردار کیا ہے کہ کرنسیوں کی قدر میں اضافہ برآمدات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

برآمدت سے متعلق ایشیائی معیشتیں ایک طویل عرصے تک اپنی ترقی کے لیے اپنی کرنسی کے سستے پن پر انحصار کرتی رہی ہیں۔ اب وہاں کا علاقائی زرعی شعبہ اور منصوعات تیار کرنے والے یہ محسوس کررہے ہیں کہ یہ پہلو ختم ہورہاہے۔ کرنسی کی مضبوطی سے بیرونی منڈیوں میں مصنوعات مزید مہنگی ہوجائیں گی۔

ترقی یافتہ معیشتوں کے بدستور کمزور رہنے سے اہم منڈیوں میں ان کے لیے کاروباری مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔شامیکا سریمان بنکاک میں اقوام متحدہ کے کاروبار سےمتعلق ایک ماہر ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت کی بحالی کے عمل کو فی الحال آزمائش کا سامنا ہے۔ اور اگرچہ مغربی منڈیوں میں کاروبار ہورہاہے لیکن اس میں اتنی تیزی نہیں ہے جتنی کہ آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ خطے کے ملکوں کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ اور اگر ایکس چینح ریٹ کا سہارا ختم ہوجائے تو برآمدکنندگان کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

تھائی لینڈ میں مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ ملک میں سرمائے کی آمد سے مقامی کرنسی کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں چھ فی صد سے زیادہ کا اضافہ ہوچکاہے۔ برآمدکنندگان کی پوزیشن جو سال کے شروع میں مضبوط تھی، منڈی میں مقابلہ پر موجود کلیدی ممالک مثلاویت نام کے ساتھ بڑھتی ہوئی مسابقت کے باعث اب نیچے آرہی ہے۔

وچائی سری پراسرت تھائی لینڈ کے رائس ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے اعزازی صدر ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ تھائی لینڈ کی مجموعی طورپر برآمدات بہت زیادہ ہیں، اگر کرنسی مضبوط ہوگی تو اس سے چاول سمیت تمام شعبوں کو نقصان پہنچے گا۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے مفاد میں یہ ہے کہ ہم اپنی کرنسی کی قدر کو مستحکم رکھیں۔ یعنی نہ توزیادہ کمزور اور نہ ہی زیادہ مضبوط۔ یہ سب سے بہتر پالیسی ہوگی۔ لیکن اب ہم ہماری کرنسی کی قدر مضبوط تر ہورہی ہے۔

ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ایشیا کی صنعتی برآمدات کے لیے آنے والے مہینوں میں منافع کی شرح بہت کم رہ جائے گی، جس سے پورے خطے میں بے روزگاری اور پیداوار میں کمی جسے خدشات پیدا ہورہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG