ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ عالمی معاشی سرگرمیوں اور ترقی کا محور برِاعظم ایشیاء کی جانب منتقل ہورہا ہے جس کے باعث موجودہ صدی کو "ایشیاء کی صدی" قرار دیا جاسکتا ہے۔
بدھ کے روز ویتنام کے درالحکومت ہنوئی میں جاری 'اے ڈی بی' کے سالانہ اجلاس کے شرکاء کو پیش کردہ ایک رپورٹ میں بینک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر ایشیائی ممالک کی ترقی کی موجودہ شرح برقرار رہی اور انہیں مخصوص معاشی چیلنجز پر قابو پانے میں کامیابی ہوئی تو 2050ء تک دنیا کی کل پیداوار، تجارت اور سرمایہ کاری میں ایشیاء کا حصہ 50 فیصد تک بڑھ جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق ترقی کی موجودہ شرح برقرار رہنے کی صورت میں ایشیاء کے جی ڈی پی کی شرح موجودہ 160 کھرب ڈالرز سے بڑھ کر 2050ء تک 1480 کھرب ڈالرز تک ہونے کا امکان ہے جس سے لگ بھگ تین ارب ایشیائی باشندوں کے معیارِ زندگی میں بہتری آئے گی۔
تاہم ایشیائی ممالک میں معاشی ترقی کی موجودہ شرح برقرار رہنے کی کوئی ٹھوس یقین دہانی کرانے سے 'اے ڈی بی' بھی قاصرہے جسے خطے کے ممالک کو ترقی کیلیے قرضے فراہم کرنے والے سب سے بڑے ادارے کا درجہ حاصل ہے۔
بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر جنرل رجت ناگ کا کہنا ہے کہ بدعنوانی اور کاروباری ضابطوں کی سنجیدہ پابندی کی کمی دو ایسے اہم عوامل ہیں جن کے باعث ایشیاء کی معاشی ترقی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
ان کے بقول اگر ایشیائی حکومتیں اپنے تین بڑے مسائل – ضابطوں کی عدم پابندی، اداروں کی نااہلی اور جدت کی کمی – پر قابو پالیں تو یہ صدی "ایشیاء کی صدی" ہوسکتی ہے۔
تاہم ناگ کے بقول اس وقت حقیقت یہ ہے کہ ایشیائی معیشتیں مغرب کی صنعتی معیشتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہت پسماندہ ہیں۔
'اے ڈی بی' نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس وقت بھی برِاعظم ایشیاء کی نصف آبادی صحت وصفائی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے جبکہ ایشیائی ممالک کے 90 کروڑ افراد کو بجلی کی سہولت حاصل نہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کا سالانہ اجلاس خطے کی صنعتی و معاشی ترقی کے موضوع پر مرتب کردہ مذکورہ رپورٹ کا رواں ہفتے جائزہ لے گا۔ اجلاس میں 61 ممالک کے معاشی ماہرین اور حکومتی ذمہ داران شریک ہیں جن میں امریکہ اور آسٹریلیا جیسے امداد دینے والے ممالک اور ایشیاء کے مختلف ترقی پذیر ممالک کے نمائندے شامل ہیں۔