سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ’’جب بھی کوئی فوجی ڈکٹیٹر ملکی معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو حالات خراب ہوتے ہیں‘‘۔
لاہور میں عاصمہ جہانگیر 2019ء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل پانچ ہر شہری کو آئین کے ساتھ وفاداری پر زور دیتا ہے۔ بقول ان کے، ’’جنرل مرزا، جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے آئین پاکستان کو اپنے پیروں تلے روندا اور لوگوں کی آواز کو دبایا اور اُنہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا‘‘۔
’قانون کی حکمرانی‘ کے عنوان پر نشست سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے مزید کہا کہ ’’آئین نے لوگوں کو جو بنیادی حققوق دیے ہیں عدالتیں اُس کی محافظ ہیں‘‘۔
ان کے الفاظ میں، "جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ آئین کے ساتھ وفادار ہیں تو خواتین و حضرات اِسی میں ہماری نجات ہے اور ہمیشہ سے اِسی میں ہماری نجات رہی ہے۔ اور جب بھی ہم اِس سے دور ہوئے تو ہم نے نتائج دیکھ لیے ہیں۔ ہم پہلے ہی آدھا ملک کھو چکے ہیں اور باقی آدھے ملک کا حال آپ دیکھ رہے ہیں۔ جب بھی کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے تو نتائج ہمیشہ لوگوں اور ملک کے لیے برے ہوتے ہیں"۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ’’جنرل ضیا نے اپنے لیے جو ریفرینڈم کرایا تھا اُس کے نتائج ماضی میں کرائے گئے تمام عام انتخابات کے نتائج سے زیادہ تھے اور مشرف والے ریفرینڈم کے نتائج اُس سے بھی زیادہ تھے‘‘۔
بقول ان کے، "ضیا کے ریفرینڈم کے وقت میں ہر ملنے والے شخص سے ہوچھتا تھا کہ کیا تم نے ووٹ دیا اور وہ کہتا تھا نہیں۔ میں کسی بھی ایسے شخص کو نہیں ملا جس نے کہا ہو کہ ہاں میں نے ریفرینڈم کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ لیکن پھر بھی اُس ریفرینڈم کے نتائج 98 فیصد سے زیادہ تھے۔ مشرف نے بھی سنہ 2002ء میں ریفرینڈم کرایا اور وہ ریفرینڈم بھی 98 فیصد مشرف کے حق میں تھا، جس کے نتیجے میں مشرف اگلے پانچ سال کے لیے صدر بن گئے"
’اظہار رائے کی آزادی‘ کے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے، نامور صحافی حامد میر نے کہا کہ ’’جس ملک کی عدلیہ آزاد نہ ہو اور جس ملک کی پارلیمنٹ آزاد نہ ہو اُس ملک کا میڈیا بھی آزاد نہیں ہو سکتا‘‘۔
حامد میر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ عدلیہ کا ’’جو بھی جج تھوڑی سی آزادی اظہار کی حمایت میں سامنے آتا ہے آپ اُس کو بھی عبرت کا نمونہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو سیاست دان تھوڑا سچ بول دے اُس کو بھی آپ عبرت کا نمونہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو صحافی سچ لکھتا ہے اُس کو بھی آپ عبرت کا نمونہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔
ان کے بقول، "پاکستان کے وہ ادارے جنہوں نے میڈیا پر سینسر شپ لگائی، انہوں نے اِس ریاست کی نظریں بھی جھکا دی ہیں۔ اِس ریاست کی گردن بھی جھکا دی ہے۔ اور اُن میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ مانیں کہ ہاں ہم نے میڈیا پر قدغنیں لگائی ہیں‘‘۔
حامد میر نے کہا کہ ’’پاکستان کے حکمران ایک طرف تو بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں لگانے کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف اُن کے اپنے ملک میں آئے روز میڈیا پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ "یہ کہاں کی حب الوطنی ہے۔ پہلے جب اُنہوں نے آصف زرداری صاحب پر پابندی لگائی تو ہم نے پوچھا کہ آپ نے پابندی کیوں لگائی ہے۔ تو جواب آیا کہ ہم آصف زرداری کی کوریج کی اجازت نہیں دے سکتے، کیونکہ ان پر مقدمہ چل رہا ہے۔ پھر مریم نواز پر پابندی لگا دی۔ ہم نے پوچھا کیوں لگائی تو جواب ملا کہ وہ سزا یافتہ ہے اُس کی کوریج کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اب مولا فضل الرحمٰن پر پابندی لگا دی ہے۔ جواب دیا کہ اِس بات کا کوئی جواب نہیں ہے۔ بس مولانا صاحب کی کوریج نہ کی جائے‘‘۔
حامد میر نے کہا کہ ’’اِس وقت مودی جو کشمیر کے ساتھ کر رہا ہے، مودی وہاں جو میڈیا پر پابندیاں لگا رہا ہے وہ بہت غلط کر رہا ہے۔ آپ مودی کے راستے پر چلتے ہوئے، پاکستانی ذرائع ابلاغ پر پابندیاں لگا رہے ہیں؟"
کانفرنس میں شریک ڈان اخبار کے صحافی سرل المیڈا نے کہا کہ وہ خود ’’ایک خوفناک صورتحال‘‘ سے گزرے ہیں۔ اور یہ کہ، محض ایک انٹرویو کی بناد پر اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا گیا اور اُن کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔
بقول ان کے، "جب آپ میڈیا کی آزادی کی بات کرتے ہیں اور جب آپ لوگوں کے بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں تو عدالتیں ہی لوگوں کے حقوق کا خیال کرتی ہیں اور اُنہیں اُن کے بنیادی حقوق دلواتی ہیں"۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی آزادی، حقوق نسواں، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی آواز اٹھانے والی عاصمہ جہانگیر کی یاد میں دو روزہ کانفرنس سجائی گئی ہے، جس میں پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں سے وکلا، صحافی، لکھاری، ادیب، سیاستدان اور سول سوسائٹی کے نمائندے شریک ہیں۔