|
ایک برس پہلے چین نے بشار الاسد اور ان کی اہلیہ کا پُرتپاک استقبال کیا تھا اور صدر شی جن پنگ نے انہیں مکمل حمایت کی یقینی دہانی کرائی تھی۔
بشار 2011 سے خانہ جنگی کا سامنا کر رہے تھے اور ایسے حالات میں چینی صدر کی جانب سے شام میں 'بیرونی مداخلت کی مخالفت' کے عزم کا اظہار ان کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا۔
تجرزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے اچانک خاتمے سے چین بھی خطے میں ایک اتحادی سے محروم ہوگیا ہے جو اس کی مشرقِ وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں کے لیے بھی بڑا دھچکا ہے۔
حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں نے تیز ترین پیش قدمی کے بعد اتوار کو شام میں اسد خاندان کے 50 سالہ اقتدار کا خاتمہ کر دیا تھا۔
اس پیش رفت کے چین سے تعلق پر بات کرتے ہوئے اٹلانٹک کونسل کے فیلو جوناتھن فلٹن کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی حالات کی صورت گری میں چین کے کردار کو بہت مبالغہ آمیز انداز میں دیکھا جارہا تھا۔
تاہم ان کے بقول اسد حکومت ختم ہونے سے جہاں اس کے قریبی اتحادیوں ایران اور روس کو صدمہ پہینچا ہے وہیں چین کے عالمی اہداف بھی متاثر ہوئے ہیں۔
وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ چین اپنے بین الاقوامی اہداف کے لیے بھی روس اور ایران جیسے ممالک پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اب خطے میں انہیں جس بڑی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس نے خطے کے اندر اور باہر چین کے انہی اتحادی ممالک کے محدود اثر و رسوخ کو واضح کردیا ہے۔
چین کی حکمتِ عملی کیا ہوگی؟
چین نے 2023 میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی میں کامیابی حاصل کی تھی تو چینی میڈیا نے اسے صدر شی کی مغربی رہنماؤں پر برتری کے طور پر پیش کیا تھا۔
اس کے بعد چین کے اعلیٰ ترین سفارت کار وانگ یی نے کہا تھا کہ چین دیرینہ عالمی تنازعات کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
رواں برس چین نے غزہ میں حماس اور فتح کے درمیان بھی صلح کرائی تھی اور غزہ میں جنگ بندی کی مسلسل کوششیں کی تھیں۔ تاہم مسلسل ملاقاتوں اور رابطوں کے باوجود چین کو اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
شنگھائی انٹرنیشنل اسٹڈیز یونیورسٹی کے مشرقِ وسطیٰ کے اسکالر فین ڈونگا کا کہنا ہے کہ اسد حکومت کے اچانک خاتمہ بھی ایسا منظر نامہ ہے جسے چین نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ چین ایک زیادہ مستحکم اور آزاد مشرقِ وسطیٰ دیکھنا چاہتا تھا۔ کیوں کہ خطے میں انتشار یا امریکہ کی جانب اس کا جھکاؤ چین کے مفاد میں نہیں ہے۔
دمشق میں حکومت ختم ہونے پر چین اپنے بیانات میں محتاط ہے اور شامی عوام کے ساتھ دیرینہ دوستانہ تعلقات کا حوالہ دینے پر اکتفا کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق چینی ماہرین اور سفارت کار اب دمشق میں بننے والی کسی نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے سوچنے میں کافی وقت لگائیں گے۔
اگرچہ چین شام میں تعمیر نو کے لیے اپنے معاشی وسائل استعمال کرکے وہاں اپنا اثر پیدا کرسکتا ہے لیکن اس کا امکان اس لیے بھی بہت کم ہے کہ حالیہ برسوں میں چین بیرونِ ملک معاشی خطرات مول لینے سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
شام نے 2022 میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن چین نے وہاں کوئی بڑی سرمایہ کاری نہیں کی جس کی ایک وجہ شام پر عائد پابندیاں بھی تھیں۔
چین اور مشرقِ وسطیٰ کے تعلقات کے ماہر پروفیسر بل فگروا کا کہنا ہے کہ چین معاشی یا سفارتی شراکت دار کے طور پر خطے میں مغربی قوتوں کی جگہ نہیں لے پایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چین کے پاس 2024 میں اتنے معاشی وسائل نہیں جتنے 2013 اور 2014 میں بی آر آئی لانچ کرتے وقت تھے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ اب چین اپنے وسائل کی بچت کے لیے سرمایہ کاری میں محتاط ہے۔
اس تحریر میں شامل معلومات 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔
فورم