|
نئی دہلی — الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو کی ایک حالیہ تقریر بھارت میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور سیاسی و قانونی حلقوں اور سوشل میڈیا پر اس تقریر پر ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اس تقریر پر چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور صدر دروپدی مورمو کے نام خطوط لکھے گئے ہیں جن میں مذکورہ جج کی تقریر کو قابلِ اعتراض کہتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی اپیل کی گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ معاملہ سپریم کورٹ کے زیرِ غور آیا ہے۔ چیف جسٹس نے شکایات موصول ہونے کے بعد اس معاملے کا نوٹس لے لیا ہے اور الہ آباد ہائی کورٹ سے تمام تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
جسٹس شیکھر کمار یادو نے اتوار کو الہ آباد ہائی کورٹ کے لائبریری ہال میں سخت گیر مذہبی تنظیم 'وشو ہندو پریشد' (وی ایچ پی) کی ایک تقریب میں اظہارِ خیال کیا تھا۔
یکساں سول کوڈ سے متعلق منعقدہ اس تقریب میں جسٹس یادو نے موضوع کے علاوہ ذبیحہ، تین طلاق، حلالہ، کثرت ازواج اور رام مندر وغیرہ کے موضوع پر بھی اظہار خیال کیا تھا۔
انہوں نے یکساں سول کوڈ کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ملک ایک ہے، آئین ایک ہے، عوام ایک ہیں تو پھر قانون ایک کیوں نہیں ہونا چاہیے۔
ان کے بقول "مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ یہ ہندوستان ہے اور ملک اکثریت کی خواہش کے مطابق چلے گا۔ جو چیز اکثریت کی فلاح و بہبود اور خوش حالی کے لیے مفید ہو وہی قابل قبول ہے۔"
جسٹس یادو نے کہا تھا کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں چار بیویاں رکھنے، حلالہ کرنے، تین طلاق دینے اور اپنی بیویوں کو نان نفقہ سے محروم رکھنے کا حق ہے۔
انہوں نے مسلم مذہبی شخصیات کے بارے میں کہا تھا کہ مسلمانوں میں سب برے نہیں ہیں۔ یہ کٹھ ملا ہیں جو خطرناک ہیں۔ وہ لوگوں کو بھڑکاتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ملک ترقی کرے۔
تقریر پر ردِ عمل
وکلا کی ایک تنظیم 'آل انڈیا لائرز یونین' نے صدر اور چیف جسٹس کے نام خط میں جسٹس شیکھر کمار یادو کی تقریر کو مسلمانوں کے خلاف 'ہیٹ اسپیچ' یعنی 'نفرت انگیز تقریر' قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
خط میں ان کی تقریر کو آئین، اس کے جذبے اور اس کے بنیادی ڈھانچے یعنی سیکولرزم اور عدلیہ کی آزادی کے منافی قرار دیا گیا۔ خط کے مطابق شیکھر کمار یادو جج کے منصب پر فائز رہنے کے اہل نہیں رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کی سینئر وکیل اندرا جے سنگھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی ایجنڈے کے تحت منعقد ہونے والے وی ایچ پی کے پروگرام میں جج کی شرکت شرم ناک ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل رویندر کمار ایڈووکیٹ نے اس تقریر پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کریں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے طلاق ثلاثہ، حلالہ اور ایک سے زائد شادیوں سے متعلق ان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات ججز اپنی حدیں فراموش کر دیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ جج کی کرسی پر بیٹھ کر کچھ بھی بول سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ملک آئین کے مطابق چلے گا۔ اکثریتی خواہش کے مطابق نہیں۔
ان کے مطابق سپریم کورٹ نے بار بار اپنے فیصلوں میں کہا ہے آئین کے بنیادی ڈھانچے یعنی سیکولرزم کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس کو اکثریت بھی نہیں بدل سکتی۔
ادھر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) کی پولٹ بیورو کی رکن اور سابق رکن پارلیمنٹ برندا کرات نے چیف جسٹس آف انڈیا کے نام خط میں جسٹس یادو کے ریمارکس پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس یادو نے اپنے عہدے کے حلف کی خلاف ورزی کی اور آئینی اصولوں کو نقصان پہنچایا۔ یہ تقریر جمہوری اور سیکولر اصولوں کے منافی تو ہے ہی، عدلیہ کی ایمان داری پر حملہ بھی ہے۔
ان کے مطابق اگر کوئی جج ایسے جانب دارانہ نظریات رکھے گا اور عوامی طور پر ایک فرقے کے خلاف اظہار خیال کرتے ہوئے اکثریت پرستی کی بات کرے گا تو پھر کوئی شخص ایسے جج سے انصاف کی امید کیسے کرے گا؟
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمن (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ جج کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ آئین ان سے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانب داری کی توقع کرتا ہے۔
انہوں نے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا ہے۔
اسد الدین اویسی نے مزید کہا کہ ملک کا آئین اکثریت پرست نہیں بلکہ جمہوری ہے۔ جمہوریت میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق وی ایچ پی پر کئی بار پابندی لگی ہے۔ اگر کوئی جج اس کے پروگرام میں شرکت کرکے ایسی باتیں کرتا ہے تو اقلیت کا کوئی فرد ان سے انصاف کی توقع کیسے کر سکتا ہے۔
ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) اور سماجوادی پارٹی (ایس پی) نے بھی جسٹس یادو کی تقریر کی مذمت کی ہے۔
اس معاملے پر مذکورہ جج یا وشو ہندو پریشد کی جانب سے تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
وائس آف امریکہ نے وشو ہندو پرشد کے ترجمان ونود بنسل سے جب اس معاملے پر ان کا ردعمل جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس مخصوص معاملے پر کوئی بات نہیں کریں گے۔
جسٹس شیکھر کے متنازع فیصلے
جسٹس شیکھر کمار یادو پہلے بھی ایسے فیصلے اور تقریر کر چکے ہیں جس پر تنازع ہوا تھا۔ انہوں نے 2021 میں گاؤ کشی کے ایک مسلم ملزم کو یہ کہتے ہوئے ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا کہ گائے کو قومی جانور اور اس کی حفاظت کو بنیادی حقوق میں شامل کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے اُسی سال ایک دوسرے فیصلے میں کہا تھا کہ رام، کرشن، رامائن، گیتا اور ان کے مصنفین والمیکی اور وید ویاس کو پارلیمنٹ سے قانون منظور کراکے قومی اعزاز سے نوازا جانا چاہیے۔
جسٹس یادو متنازع فیصلے سنانے والے واحد جج نہیں ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک اور جج جسٹس روہت رنجن گروال نے اپنے ایک فیصلے میں تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا کہ اگر تبدیلی مذہب اسی طرح ہوتا رہا تو ایک دن اکثریت اقلیت میں آجائے گی۔
اُس وقت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس منوج مشرا کے بینچ نے اس معاملے پر سماعت کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ جسٹس روہت رنجن اگروال کے تبصرے کا کوئی بھی جج حوالہ نہ دے۔ بینچ نے ملزم کو ضمانت دے دی تھی۔
اسی سال کرناٹک ہائی کورٹ کے جج سریشانند نے ایک معاملے پر سماعت کرتے ہوئے بنگلور کے ایک علاقے کو پاکستان قرار دیا تھا۔ جس پر ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والے بینچ نے سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ ملک کے کسی بھی حصے کو پاکستان نہیں کہہ سکتے۔ بعد ازاں مذکورہ جج نے اپنے تبصرے پر معذرت کی تھی۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے رواں سال کے یومِ آزادی پر لال قلعے سے اپنے خطاب میں یکساں سول کوڈ کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ جلد ہی ایک ’سیکولر سول کوڈ‘ لایا جائے گا۔
جہاں تک تین طلاق، کثرت ازواج اور حلالہ کی بات ہے تو حکومت نے پارلیمنٹ سے ایک قانون منظور کروا کر بیک وقت تین طلاق دینے کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ قانون کے مطابق اگر کوئی ایسا کرتا ہوا پایا جائے گا تو اسے جیل بھیج دیا جائے گا۔
حکمراں جماعت بی جے پی کے کئی رہنما اور دیگر ہندو تنظیمیں مسلمانوں پر اکثر و بیش تر یہ الزام لگاتی ہیں وہ اپنی اپنی آبادی بڑھانے کے لیے وہ چار چار شادیاں کرتے اور زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا ایک سے زائد شادی پر پابندی لگنی چاہیے۔
فورم