رسائی کے لنکس

بھارت کی دو ریاستوں میں سرحدی تنازع، آسام کے وزیرِ اعلیٰ کے خلاف مقدمہ درج


رپورٹس کے مطابق ایف آئی آر میں ریاست کے دو اعلیٰ افسران اور 200 نامعلوم افراد کا بھی ذکر ہے۔ آسام کے وزیرِ اعلیٰ نے میزورام پولیس کی اس کارروائی کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے جب کہ وہ عدالت سے آسام کے جنگلات کے تحفظ کی اپیل بھی کریں گے۔ (فائل فوٹو)
رپورٹس کے مطابق ایف آئی آر میں ریاست کے دو اعلیٰ افسران اور 200 نامعلوم افراد کا بھی ذکر ہے۔ آسام کے وزیرِ اعلیٰ نے میزورام پولیس کی اس کارروائی کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے جب کہ وہ عدالت سے آسام کے جنگلات کے تحفظ کی اپیل بھی کریں گے۔ (فائل فوٹو)

بھارت کے شمال مشرق میں دو ریاستوں آسام اور میزورام کے درمیان سرحدی تنازع طول پکڑتا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں دونوں ریاستوں کی پولیس کے درمیان جھڑپ میں آسام کے پانچ پولیس اہل کار ہلاک ہوئے تھے جس پر اب آسام کے وزیرِ اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کے خلاف قتل اور مجرمانہ سازش کے الزامات کے تحت میزورام میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

یہ ایف آئی آر 26 جولائی کو دونوں ریاستوں کی پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے سلسلے میں درج کی گئی ہے جس میں آسام کے پانچ پولیس اہل کار اور ایک عام فرد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔

رپورٹس کے مطابق ایف آئی آر میں ریاست کے دو اعلیٰ افسران اور 200 نامعلوم افراد کا بھی ذکر ہے۔

آسام کے وزیرِ اعلیٰ نے میزورام پولیس کی اس کارروائی کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے جب کہ وہ عدالت سے آسام کے جنگلات کے علاقے کے تحفظ کی اپیل بھی کریں گے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ میزورام پولیس کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں تعاون کریں گے۔ تاہم انہوں نے سوال کیا کہ اس واقعے کی کسی آزاد ایجنسی سے تحقیقات کیوں نہیں کرائی جاتی؟

اس سے قبل 26 جولائی کے واقعے کے بعد مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ نے دونوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے بات کی تھی اور باہمی گفت و شنید سے مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا تھا۔

اسی درمیان آسام پولیس نے میزورام پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس سے 26 جولائی کے واقعے کی تحقیقات میں شامل ہونے کا کہا ہے۔

کچھار پولیس کی جانب سے بھیجے جانے والے نوٹس میں میزورام کے چھ پولیس اہل کاروں کے نام ہیں۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ میزورام کے پولیس اہل کار دو اگست کو کچھار پہنچیں اور تحقیقات میں شامل ہوں۔

گزشتہ برس اکتوبر اور نومبر میں بھی متنازع سرحدی علاقے میں آسام اور میزورام کے شہریوں کے درمیان دو بار تصادم ہوا تھا جس میں آٹھ افراد زخمی ہوئے تھے اور کئی جھونپڑیوں اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔

دریں اثنا آسام کے وزیرِ اعلیٰ کا کہنا ہے کہ دونوں ریاستوں کے درمیان یہ طے پایا ہے کہ وہ سرحدی علاقوں سے نیم مسلح دستے ہٹا لیں گے۔

جولائی کی 26 تاریخ کو ہونے والے تشدد کے سلسلے میں میزورام کے وزیر اعلیٰ زورم تھنگا کا کہنا ہے کہ یہ تصادم اس وقت شروع ہوا جب کچھار ضلع کے ویرنگتے آٹو رکشا اسٹینڈ کے نزدیک واقع سی آر پی ایف پوسٹ میں آسام کے 200 سے زیادہ پولیس اہل کار پہنچے تھے اور انہوں نے میزورام پولیس اور مقامی لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب مقامی لوگ جمع ہونے لگے تو ان پر لاٹھی چارج کیا گیا اور آنسو گیس کے گولے داغے گئے۔ اس میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔

ان کے مطابق اعلیٰ پولیس اہل کاروں نے آسام پولیس کو سمجھانے کی کوشش کی۔ کشیدگی کے درمیان آسام پولیس نے دستی بم پھینکے اور فائرنگ کی جس کے جواب میں میزورام پولیس نے بھی فائرنگ کی۔

دوسری جانب آسام کے وزیرِ اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے کہا کہ یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب میزورام حکومت نے آسام کے علاقے لیلیٰ پور میں سڑک تعمیر کرنا شروع کی۔

اسی سلسلے میں آسام پولیس کے انسپکٹر جنرل، ڈی آئی جی اور ایس پی جیسے اعلیٰ اہل کار وہاں گئے تھے تاکہ انہیں حالات جوں کے توں قائم رکھنے کے لیے سمجھایا جا سکے۔

وزیرِ اعلیٰ ہیمنت شرما کے مطابق مقامی لوگوں نے آسام پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا تھا۔

ان کے مطابق بات چیت کے دوران کشیدگی بڑھتی گئی اور میزورام پولیس نے گولی چلا دی جس میں آسام پولیس کے اہل کار مارے گئے اور کچھار ضلع کے ڈی ایس پی سمیت 50 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔

ہیمنت بسوا شرما نے کہا کہ جو ثبوت سامنے آئے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ میزورام کی پولیس نے آسام پولیس کے خلاف لائٹ مشین گن کا استعمال کیا جو کہ بہت افسوس ناک ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت دونوں ریاستوں کی سرحد پر صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے۔ دونوں جانب مسلح پولیس سرحدی علاقوں کی نگرانی کر رہی ہے۔

خیال رہے کہ آسام کے ساتھ میزورام کی تقریباً 165 کلو میٹر طویل مشترکہ سرحد ہے۔ جس میں میزورام کے تین اضلاع آئزول، کولا سیب اور ممیت آتے ہیں۔ جب کہ آسام کے کچھار، کریم گنج اور ہیلا کاندی اضلاع اس سے متصل ہیں۔

گزشتہ برس کچھار ضلعے کے لیلیٰ پور گاؤں کے باشندوں اور میزورام کے کولاسیب ضلع کے ویرنگتے علاقے کے پاس مقامی لوگوں میں سرحدی تنازعے کے باعث پرتشدد تصادم ہوا تھا جس میں آٹھ افراد زخمی ہوئے تھے۔

کولا سیب کے ڈپٹی کمشنر ایچ للتھنگ لیانا کے مطابق چند سال قبل آسام اور میزورام کے درمیان سرحدی علاقے کے نو مینز لینڈ پر اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے سلسلے میں سمجھوتا ہوا تھا۔

ان کے مطابق لیلیٰ پور کے کچھ شہریوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اور وہاں عارضی طور پر کچھ جھونپڑیاں بنا لیں۔ اس کے بعد میزورام کے شہریوں نے وہاں جا کر ان جھونپڑیوں میں آگ لگا دی۔

ان کے مطابق یہ علاقہ میزورام کے ماتحت آتا ہے۔ جب کہ دوسری جانب کچھار کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کیرتی جالی کے مطابق ریاست کے ریکارڈ کے مطابق متنازع علاقہ آسام میں آتا ہے۔

ادھر میزورام کے حکام کا دعویٰ ہے کہ اس علاقے پر جس پر آسام دعویٰ کرتا ہے، میزورام کے شہری ایک طویل عرصے سے کھیتی باڑی کر رہے ہیں۔

دریں اثنا آسام حکومت نے ایڈوائزری جاری کر کے اپنی ریاست کے شہریوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ میزورام جانے سے گریز کریں۔

اس اعلان پر بعض حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ بھارت ہی کی دو ریاستوں کے درمیان یہ تنازع افسوسناک ہے۔

دریں اثنا تنازعے کے پیشِ نظر میزورام میں کولاسیب کی ضلعی انتظامیہ نے متعدد حفاظتی اقدامات کیے ہیں جن میں کئی علاقوں کو ڈرونز کے لیے ’نو فلائی زون‘ بنا دیا گیا ہے۔

ضلع انتظامیہ کے مطابق آرمی کو بھی ڈرونز استعمال کرنے کے لیے اس سے اجازت لینا ہوگی۔

گزشتہ سال اکتوبر اور نومبر میں بھی متنازع سرحدی علاقے میں آسام اور میزورام کے شہریوں کے درمیان دو بار تصادم ہوا تھا۔ (فائل فوٹو)
گزشتہ سال اکتوبر اور نومبر میں بھی متنازع سرحدی علاقے میں آسام اور میزورام کے شہریوں کے درمیان دو بار تصادم ہوا تھا۔ (فائل فوٹو)

صورتِ حال پر نظر رکھنے کے لیے نیم مسلح دستوں کی چھ کمپنیاں سرحدی علاقے میں تعینات کر دی گئی ہیں۔

اسی درمیان آسام حکومت نے میزورام سے آنے والی تمام گاڑیوں کی جانچ کا حکم دیا ہے جس کی میزورام انتظامیہ نے مذمت کی ہے۔

میزورام کے محکمۂ داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ حکم غیر آئینی بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔ اس سے میزورام سے آسام جانے والے بے قصور شہریوں کو دشواری کا سامنا ہوگا۔

بیان کے مطابق اس سے قبل غیر قانونی منشیات لے کر آسام سے میزورام میں داخل ہونے والے بہت سے لوگوں کو پکڑا گیا اور گاڑیاں ضبط کی گئیں۔ البتہ کبھی بھی تمام گاڑیوں کی تلاشی نہیں لی گئی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG