رسائی کے لنکس

بیرون ملک اثاثے واپس کون لائے گا؟


ماہرین کے مطابق پاکستان کے حکومتی اداروں کے لیے ان جائیدادوں کا سراغ لگانا بہت مشکل ہو گا۔ خصوصاً دبئی کی جائدادیں کیونکہ ابھی تک دبئی کی رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی سے کسی قسم کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

حالیہ دنوں میں پاکستان میں ایسے درجنوں بینک کھاتوں (اکاونٹس) کا انکشاف ہوا ہے جنہیں حکام کے مطابق منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک حالیہ خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان سے سالانہ 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ باہر بھیجے جانے والا یہ پیسہ غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس سے منتقل ہوتا رہا ہے جنہیں ٹیکس کی چھوٹ حاصل تھی لہٰذا یہ رقوم پاکستان کے ٹیکس نیٹ میں شامل نہی ہوتیں۔

معروف ٹیکس ماہر شبّر زیدی کہتے ہیں کہ ​'پروٹیکشن آف اکنامک ریفارم ایکٹ 1992 اور فارن کرنسی اکاؤنٹس پروٹیکشن آرڈیننس 2001 کسی بھی کھاتا دار کو فنڈز کی آزاد منتقلی کی اجازت دیتا تھا، جو کہ 2018 کے فنانس بل میں سپریم کورٹ کی مداخلت پر تبدیل کیا گیا تھا'

پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیدادوں کے کیس میں سپریم کورٹ کافی متحرک نظر آتی ہے، ایف آئی اے کی عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیدادوں میں 2700 صرف متحدہ ارب امارت میں ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیدادوں کی مالیت ایک ہزار ارب روپے سے بھی زائد ہے۔

رقوم کی غیر قانونی کی منتقلی سے متعلق کیس سپریم کورٹ نے از خود نوٹس سے شروع کیا تھا جب یہ خبریں آئیں کہ پاکستانی شہریوں ایک بڑی تعداد کے غیر ممالک میں بینک اکاؤنٹس ہیں جنہیں یا تو پاکستان میں ظاہر نہیں کیا گیا یا پھر ان اکاؤنٹس میں موجود رقم پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا۔

اس سلسلے میں VOA کی متعدد ماہرین سے بات ہوئی۔ وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان کے حکومتی اداروں کے لیے ان جائیدادوں کا سراغ لگانا بہت مشکل ہو گا۔ خصوصاً دبئی کی جائدادیں کیونکہ ابھی تک دبئی کی رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی سے کسی قسم کی تصدیق نہیں ہو سکی اور جو بھی معلومات ہیں وہ نجی زرائع سے حاصل کی گئی ہیں جن کو عدالتوں میں ثابت کرنا تقریبا ناممکن ہو گا۔

ماہرین کے مطابق برطانیہ میں یہ کام قدرے آسان ہو گا کیونکہ معلومات سرکاری زرائع سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ یقین سے کہنا کہ وہ جائیدادیں حکومت پاکستان کے حوالے ہو جائیں گی ناممکن سی بات ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل راجہ مقسط نواز خان کا کہنا ہے 'مشکل کام پیسہ واپس لانا ہو گا، خاص طور پر ان ممالک سے جن کے ساتھ پاکستان کے کوئی ایسے معاہدے نہیں ہیں۔

پاکستان کی تقریبا 25 فیصد معیشت کھاتوں میں نہیں آتی جسے گرے اکانومی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کو سب سے پہلے اپنے معاشی نظام کو قانون کے ضابطوں میں لانا ہو گا۔ اسکے علاوہ ہنڈی یا حوالہ کے ذریعے رقوم کی منتقلی کو روکنے کے لیے موجودہ قوانین کے موثر نہ ہونے کے وجہ سے ایسے عناصر بلا خوف یہ کاروبار کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG