زمین کے قریبی خلائی دائرے پر نظر رکھنے والے ادارے نیئر ارتھ آبزرویٹری (این ای او) نے کہا ہے کہ ایک بڑا شہاب ثاقب ہفتے کے روز زمین کے پاس سے گزرے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہاب ثاقب، نیویارک میں قائم ایک فلک شگاف عمارت امپائر سٹیٹ بلڈنگ سے بھی بڑا ہے۔
این ای او کا کہنا ہے کہ یہ شہاب ثاقب 2002 این این 4 کے نام سے موسوم ہے اور اس کا قطر 570 میٹر ہے، جب کہ امپائر سٹیٹ بلڈنگ کی بلندی 426 میٹر ہے۔
این ای او کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ شہاب ثاقب سے خوف زدہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ زمین کے قریب سے گزرنا ایک عمومی اصطلاح ہے، کیونکہ اس کا تعین زمین اور سورج کے درمیان فاصلے کے تناسب سے کیا جاتا ہے۔
زمین اور سورج کے درمیان فاصلہ تقریباً 150 ملین کلومیٹر ہے، جسے ایک خلائی یونٹ کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز زمین سے اعشاریہ 3 خلائی یونٹ کے فاصلے پر ہو تو اسے زمین کے قریب ہونا کہا جاتا ہے۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ شہاب ثاقب 2002 این این 4 زمین سے تقریباً اعشاریہ 034 خلائی یونٹس کے فاصلے سے گزرے گا۔ یعنی زمین سے اندازاً 50 لاکھ کلومیٹر کی دوری سے، جو زمین اور چاند کے درمیان فاصلے کا 13 گنا ہے۔
ناسا نے زمین کے قریبی خلا کی نگرانی کے لیے ایک رسد گاہ 1998 میں قائم کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ زمین کے قریب سے گزرنے والے ایسے شہاب ثاقب کم ہوتے ہیں، جن کا سائز اتنا بڑا ہو کہ رسد گاہ کا نظام اس سے خبردار کرے۔ تاہم، کشش ثقل کی قوتیں خلا میں بھٹکتی ہوئی بعض چٹانوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور انہیں زمین کے قریب لے آتی ہیں، جس سے ان کے زمین سے ٹکرانے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
ناسا کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں ان کے پاس متبادل منصوبے موجود ہوتے ہیں۔