رسائی کے لنکس

سابق طالبان سربراہ ملا اختر منصور کی کراچی میں جائیداد کی نیلامی


ملا اختر منصور مئی 2016 میں ایران، پاکستان سرحد کے قریب امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
ملا اختر منصور مئی 2016 میں ایران، پاکستان سرحد کے قریب امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔

امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے افغان طالبان کے سابق سربراہ مُلا اختر منصور کی پاکستان میں ضبط شدہ جائیداد کی نیلامی عدالت کی زیرِ نگرانی شروع کر دی گئی ہے۔

ہفتے کو انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق کراچی میں مُلا اختر منصور کی چھ جائیدادوں کی نیلامی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے جس میں سے ایک جائیداد فروخت کی جا چکی ہے۔

کراچی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کردہ رپورٹ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام نے بتایا کہ اختر منصور کے جعلی شناختی کارڈ پر حاصل کی گئی جائیدادوں کی ضبطگی کے بعد نیلامی کا عمل اب تک شروع نہیں ہو سکا تھا جس پر عدالت نے پشاور اور کوئٹہ کے متعلقہ لینڈ ریونیو افسران کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔

افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کے نام پر کراچی میں موجود جائیدادوں کو 24 اپریل کو عدالتی حکم کے بعد ضبط کیا گیا تھا جس کے بعد ان کے نام پر شہر میں موجود چھ املاک کو سیل کر دیا گیا تھا۔

ان جائیدادوں میں کراچی میں واقع گلشن معمار کے ڈی اے اسکیم 45 میں ایک گھر، گلشنِ معمار ہی میں واقع صنوبر ہائیٹس میں ایک فلیٹ، اسی علاقے میں 441 گز کا ایک پلاٹ، گلزار ہجری میں ایک پلاٹ اور فلیٹ، جب کہ دہلی مرکنٹائل کوآپریٹو سوسائٹی کے مہنگے علاقے میں بھی ایک فلیٹ شامل ہے۔

ایف آئی حکام کے مطابق ان جائیدادوں کی مالیت کروڑوں روپے ہے۔

طالبان رہنما ملّا عبدالسلام ضعیف ہمسایہ ممالک سے کیا توقع رکھتے ہیں؟
طالبان رہنما ملّا عبدالسلام ضعیف ہمسایہ ممالک سے کیا توقع رکھتے ہیں؟

سرکاری وکلا کا الزام ہے کہ ملا اختر منصور نے اپنے فرنٹ مین گل محمد، اختر محمد اور عمار یاسر کے ذریعے جعل سازی، فراڈ اور دھوکے کے ساتھ یہ جائیدادیں خریدی تھی جس پر ان ملزمان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔

ایف آئی اے کی جانب سے اس کیس میں عدالت میں جمع کرائے گئے چالان کے مطابق ملا منصور اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے جائیدادوں کی خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک تھے، جس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔

حکام کے بقول ملا اختر منصور نے اس مقصد کے لیے دو جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بھی بنوا رکھے تھے۔ سابق طالبان رہنما نے محمد ولی اور گل محمد کے ناموں پر نادرا حکام کو غلط معلومات فراہم کر کے دو جعلی شناختی کارڈ بنوائے تھے۔

انہوں نے کراچی ہی میں دو مختلف بینک اکاؤنٹس بھی کھلوا رکھے تھے۔ ملا اختر منصور کے ان اکاؤنٹس کے ذریعے پراپرٹی کے کاروبار سے حاصل کی جانے والی رقم استعمال کی جاتی رہی۔

ملا اختر منصور کے ان اکاونٹس میں 30 لاکھ روپے کے قریب رقم موجود تھی۔

ملا اختر منصور 2016 میں ایرانی سرحد کے قریب پاکستانی علاقے میں ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ (فائل فوٹو)
ملا اختر منصور 2016 میں ایرانی سرحد کے قریب پاکستانی علاقے میں ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ (فائل فوٹو)

ملا اختر منصور کے بارے میں عدالت کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ انہوں نے ایک انشورنس پالیسی میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی تھی جس کے لیے تین لاکھ سے زائد رقم ادا کی جا چکی تھی۔

مذکورہ انشورنس کمپنی کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ یہ سرمایہ کاری جعلی شناختی کارڈ پر کی گئی تھی۔

کمپنی نے انشورنس کے لیے جمع کرائے گئی اضل رقم کی واپسی پر آمادگی ظاہر کی، تاہم عدالت نے کمپنی کو پریمیم کے ساتھ رقم عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا۔

'پاکستان طالبان پر اپنا اثر و رُسوخ استعمال کرے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:14:38 0:00

ملا اختر منصور کون تھے؟

افغانستان کے علاقے قندھار سے تعلق رکھنے والے ملا اختر منصور طالبان کے اہم اور چوٹی کے رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور طالبان کی سپریم کمان میں ڈپٹی چیف سمیت کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔

طالبان دورِ حکومت میں وہ افغانستان کی سول ایوی ایشن اور سیاحت کے وزیر تھے۔ انہیں ملا عمر کا انتہائی قریبی ساتھی سمجھا جاتا تھا اور ملا عمر کے بعد وہی طالبان شوریٰ کے سربراہ مقرر کیے گئے تھے۔

2015 میں طالبان سربراہ ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد ملا اختر منصور کو طالبان کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

ملا اختر منصور کو اُس وقت امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ مئی 2016 میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے اور مبینہ طور پر کوئٹہ کی جانب سفر کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ ملا اختر منصور کو اقوامِ متحدہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا تھا۔ ان پر رکن ممالک میں کوئی بھی کاروبار یا دیگر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے سمیت بینک اکاؤنٹس کھلوانے پر بھی پابندی تھی۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG