رسائی کے لنکس

عورت مارچ: 'آزادی اظہار پر ایسے پابندی نہیں لگ سکتی'


پچھلے سال لاہور میں ہونے والے عورت مارچ میں شریک خواتین (فائل فوٹو)
پچھلے سال لاہور میں ہونے والے عورت مارچ میں شریک خواتین (فائل فوٹو)

لاہور ہائی کورٹ میں رواں سال عورت مارچ روکنے کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے کہا ہے کہ آزادی اظہار رائے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، جسٹس مامون الرشید کی عدالت میں درخواست پر سماعت ہوئی۔

درخواست گزار اظہر صدیق نے عورت مارچ پر پابندی کے حق میں جب کہ حنا جیلانی ایڈوکیٹ نے مخالفت میں دلائل دیے۔

دوران سماعت ڈائریکٹر فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) عبدالرب چوہدری اور ڈی آئی جی آپریشنز لاہور پولیس رائے بابر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

حنا جیلانی نے دلائل دیے کہ وہ عورت مارچ خواتین کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے کرنا چاہتی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس مامون الرشید نے کہا کہ یہ تاثر دیا گیا کہ درخواست سماعت کے لیے منظور ہوئی ہے، ایسا نہیں ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا مزید کہنا تھا کہ وہ صرف سرکاری اداروں کا موقف جاننا چاہتے تھے۔ جس پر حنا جیلانی نے کہا وہ عورت مارچ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر آٹھ مارچ کو کریں گی۔ اُس دِن اتوار ہے، جس سے کاروبار پر اثر نہیں ہو گا۔

اِس موقع پر درخواست گزار اظہر صدیق نے عدالت کو بتایا کہ وہ عورت مارچ رکوانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ تو صرف اِس مارچ کو ریگولیٹ کرانا چاہتے ہیں۔ جس پر حنا جیلانی نے کہا کہ درخواست گزار کا اس سے کیا تعلق ہے۔ وہ کیوں اس کی تشہیر کی سوشل میڈیا میں پابندی چاہتے ہیں۔ پہلے بھی مارچ پُرامن رہا۔

اظہر صدیق نے دوران سماعت عدالت کے سامنے گزشتہ سال ہونے والے عورت مارچ کے پوسٹرز پیش کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیں پچھلے سال کیا ہوا تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آزادی اظہار پر ایسے پابندی نہیں لگ سکتی۔

درخواست گزار اظہر صدیق نے عدالت کو بتایا کہ وہ عورت مارچ رکوانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ تو صرف اِس مارچ کو ریگولیٹ کرانا چاہتے ہیں۔
درخواست گزار اظہر صدیق نے عدالت کو بتایا کہ وہ عورت مارچ رکوانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ تو صرف اِس مارچ کو ریگولیٹ کرانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس مامون الرشید نے حنا جیلانی کو کہا کہ اُن کے مارچ کو کوئی نہیں روکے گا، البتہ سوشل میڈیا پر غیر ذمہ درانہ بیانات سے گریز کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ڈی آئی جی آپریشنز رائے بابر سے مارچ کی سیکیورٹی کے حوالے سے بھی استفسار کیا۔

عدالت نے حنا جیلانی کے فریق بننے اور اعتراضات پر درخواست گزار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پولیس اور ایف آئی اے سے رپورٹ طلب کر لی اور کیس کی سماعت تین مارچ تک ملتوی کر دی۔

کیس کی سماعت کے بعد عورت مارچ کیس کا دفاع کرنے والی خاتون وکیل حنا جیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اِس درخواست کو عدالت میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ کیوں کہ عدالتیں انسانوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے ہوتی ہیں۔ اُنہیں دبانے کے لیے نہیں۔

حنا جیلانی نے کہا کہ عورت مارچ والے دن ریلی نکالنے کے معاملات ضلع انتظامیہ اور ریلی منتظمین کے درمیان چل رہے ہیں۔ ان کے بقول ریاست کا کام آزادی اظہار رائے کی حفاظت کرنا ہے۔

حنا جیلانی کہنا تھا کہ گزشتہ سال ہونے والے عورت مارچ کے بارے میں جو الفاظ اور زبان استعمال کی گئی ہے اُس پر اُنہیں اعتراض ہے۔
حنا جیلانی کہنا تھا کہ گزشتہ سال ہونے والے عورت مارچ کے بارے میں جو الفاظ اور زبان استعمال کی گئی ہے اُس پر اُنہیں اعتراض ہے۔

حنا جیلانی نے کہا کہ گزشتہ سال ہونے والے عورت مارچ کے بارے میں جو الفاظ اور زبان استعمال کی گئی ہے اُس پر اُنہیں اعتراض ہے۔

حنا جیلانی کے بقول وہ مارچ کو متنازع بنانے کی ہرگز حمایتی نہیں ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم اِس ملک کے لوگ ہیں اور ہماری نسلیں اِس ریلی میں شرکت کرتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک بات ہے اخلاقیات کی، تو ہمیں زیادہ پتا ہے کہ اخلاقیات کیا ہوتی ہیں۔ ہم اپنے ماں باپ سے سیکھ کر آئے ہیں، ہم اِن درخواست گزاروں سے اخلاقیات سیکھنے نہیں آئے۔

درخواست گزار اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ وہ عورت مارچ رکوانا نہیں چاہتے۔ وہ تو صرف سوشل میڈیا قوانین ریگولیٹ کرانے اور عورت مارچ کو ریگولیٹ کرانا چاہتے ہیں۔

گزشتہ سال آٹھ مارچ کو عورت مارچ ریلی نکالے جانے پر لاہور کے سیشن کورٹ نے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ریلی کے منتظمین کو گرفتار کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ (فائل فوٹو)
گزشتہ سال آٹھ مارچ کو عورت مارچ ریلی نکالے جانے پر لاہور کے سیشن کورٹ نے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ریلی کے منتظمین کو گرفتار کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ (فائل فوٹو)

اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ عورت مارچ کے ذریعے جو مطالبات سامنے لائے جا رہے ہیں۔ انہیں یہ خواتین پارلیمنٹ میں لے کر جائیں یا اِن پر عمل درآمد کے لیے عدالتوں سے رجوع کریں۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر آٹھ مارچ کو لاہور سمیت پاکستان کے بڑے شہروں میں عورت مارچ کے عنوان سے ریلیاں نکالی گئی تھیں۔ مختلف حلقوں کی جانب سے ریلی میں اٹھائے گئے پلے کارڈز اور پوسٹرز کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG