رسائی کے لنکس

یومِ خواتین پرکئی شہروں میں عورت مارچ, شرکا کی تعداد ماضی سے کم رہی


انسانی حقوق کی کارکن اور منتظمین میں شامل طاہرہ عبداللہ کا شرکا کی کم تعداد کے بارے میں کہنا تھا کہ گزشتہ دو برس میں مارچ میں حصہ لینے والی خواتین کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جو شرکت میں کمی کی ایک وجہ ضرور ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن اور منتظمین میں شامل طاہرہ عبداللہ کا شرکا کی کم تعداد کے بارے میں کہنا تھا کہ گزشتہ دو برس میں مارچ میں حصہ لینے والی خواتین کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جو شرکت میں کمی کی ایک وجہ ضرور ہے۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے ریلیاں اور مارچ منقعد کیے گئے البتہ گزشتہ برسوں کی نسبت اس سال شرکا کی تعداد میں کمی دیکھی گئی۔

اسلام آباد میں سول سوسائٹی کا منعقد کیا گیا ’عورت آزادی مارچ‘ نیشنل پریس کلب سے شروع ہو کر ڈی چوک پر ختم ہونا تھا جب کہ مارچ کلب کے قریب ایف سکس میں واقع سپرمارکیٹ پر ہی ختم کر دیا گیا۔

مارچ مقررہ مقام سے قبل ختم ہونے کی وجہ پوچھنے پر انتظامیہ کی رکن فرزانہ باری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مارچ کے لیے شہری اتنظامیہ نے اجازت نامہ جاری ہی نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے تمام سرگرمیوں کو کلب کے سامنے واقع سڑک تک محدود کر دیا گیا تھا۔

مارچ کے لیے مقرر وقت کے مطابق شرکا مختلف رنگوں کے پلے کارڈز تھامے سڑک پر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ان میں کئی کتبوں پر ہر سال کی طرح اس بار بھی دلچسپ نعرے درج تھے جیسے کہ ’جاگی جاگی عورت جاگی، چترال سے لے کر کراچی تک" یا "توبولے گی، منہ کھولے گی، تب ہی زمانہ بدلے گا" جب کہ شرکا "عورت کسی کی جاگیر نہیں" جیسے نعرے بھی بلند کرتے رہے۔ اسلام آباد میں عورت آزادی مارچ کا رواں برس کا موضوع ’انصاف، آزادی اور تحفظ‘ تھا۔

عورت آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ خواتین کو کم اجرت، کام کی جگہ پر ہراسانی اور وراثت کے حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو پدر شاہی معاشرے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

انسانی حقوق کی کارکن ایمان مزاری کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صرف خواتین کے حقوق سلب نہیں ہو رہے بلکہ کسی بھی مذہبی یا معاشرتی اقلیت سے تعلق رکھنے والے بے شمار مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

مارچ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کتھک رقاص احمد ابن سکینہ نے خواتین کی خود مختاری اور آزادی کے موضوع پر ایک مختصر ٹیبلو پیش کیا۔

انسانی حقوق کی کارکن اور مارچ کے منتظمین میں شامل طاہرہ عبداللہ کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ بات حیرت سے کم نہیں ہے کہ 18 فروری کو مارچ کی اجازت کے لیے درخواست جمع کرائی گئی تھی, جب کہ آج تک اس کو منظور نہیں کیا گیا۔

شرکا کی کم تعداد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران مارچ میں حصہ لینے والی خواتین کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جو شرکت میں کمی کی ایک وجہ ضرور ہے۔

دائیں بازو کی خواتین کا مارچ

دوسری طرف دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور خواتین نے جماعت اسلامی کے خواتین مارچ میں حصہ لیا۔

جماعت اسلامی کے مارچ کی شرکا بھی اجازت نامہ نہ ملنے کہ وجہ سے سپر مارکیٹ کے قریب ہی جمع ہو سکیں۔

دونوں مارچ بہت قریب ہو رہے تھے اس لیے امن و امان کی کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔

جماعت اسلامی کے خواتین واک کی منتظم، رکن اور رہنما عائشہ سید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کا مقصد خواتین کے مسائل اجاگر کرنا ہے البتہ وہ اس کے لیے تصادم کا راستہ نہیں اختیار کرنا چاہتیں۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے اپنے شرعی حقوق کے لیے جدو جہد جاری رکھنے پر ان کی حوصلہ افزائی کی۔

اجتماع کے لیے شہری انتظامیہ کی جانب سے اجازت نامے کے اجرا کے معاملے پر اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خواتین آزادی مارچ کے شرکا کو کہا گیا تھا کہ وہ کسی نئی جگہ کا انتخاب کر لیں یا وقت تبدیل کریں کیوں کہ ایک ہی وقت میں جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام (ف) نے بھی پریس کلب سے ڈی چوک تک واک کی اجازت طلب کی تھی اور ایک ہی وقت میں تمام جماعتوں کو ایک ہی جگہ پر سیکیورٹی فراہم کرنا بڑا مسئلہ ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عوامی ورکرز پارٹی نے بھی خواتین کے اجتماع کے لیے درخواست دی تھی اور انہیں چھ مارچ کو ایف نائن پارک میں جلسہ کرنے کے لیے یہ اجازت نامہ جاری کر دیا گیا تھا۔

  • 16x9 Image

    گیتی آرا

    گیتی آرا ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے نیوز اور فیچر سٹوریز تحریر اور پروڈیوس کرتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG