|
امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ انہیں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس ان امریکی افواج پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو غزہ کے ساحل پر سمندری راستے سے جنگ زدہ پٹی تک امداد پہنچانے کے لیے عارضی بندرگاہ بنا رہے ہیں۔
ہوائی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے بتایا کہ "مجھے فی الحال ایسا نظر نہیں آتا کہ (حماس کا) ایسا کرنے کا کوئی فعال ارادہ ہے۔"
وزیر دفاع نے زور دیا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کے اعلیٰ کمانڈر سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ایرک کوریلا نے امداد کے لیے عارضی بندرگاہ بنانے والے اور امداد کی تقسیم میں مدد کرنے والے امریکی فوجیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کئی حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔
اس سلسلے میں آسٹن نے بتایا کہ امریکہ کے اتحادی بھی اس علاقے میں سیکورٹی فراہم کر رہے ہیں۔
آسٹن نے کہا کہ اس لیے اس بات کی ضرورت ہو گی کہ امریکہ ان کے ساتھ بہت قریب سے رابطہ قائم کرے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو ہمارے فوجی محفوظ ہیں۔
خیال رہے کہ نئی بندرگاہ غزہ شہر کے بالکل جنوب مغرب میں ہے جہاں گزشتہ ہفتے ایک مارٹر حملے میں اس مقام کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ اس حملے میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔
دریں اثنا، حماس کے رہنماوؤں نے کہا ہے کہ وہ غزہ جنگ بندی کے معاہدے پر "مثبت جذبے" کے ساتھ غور کر رہے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کی بین الااقوامی برادری کی مدد سے کی جانے والی کوششوں کے باوجود مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے مشرق وسطیٰ اپنے حالیہ دورے میں حماس پر زور دیا تھا کہ اگر وہ غزہ میں لوگوں کی پروا کرتی ہے تو اسے جنگ بندی پر آمادہ ہونا چاہیے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ تنظیم "بہت جلد" ایک وفد مصر بھیجے گی تاکہ جنگ بندی پر جاری بات چیت کو ایک معاہدے کے ساتھ مکمل کیا جا سکے جس میں "ہمارے لوگوں کے مطالبات کا بھی ادراک کیا گیا ہو۔"
ایسا کئی مہینوں کے مذاکرات کے بعد دیکھا جارہا ہے کہ حماس نے یرغمالوں کی تازہ ترین جنگ بندی کی تجویز کے بارے میں امید افزا لہجہ اختیار کیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق حماس کے اس لہجے سے جلد ہی کوئی معاہدہ طے پانے کی امید پیدا ہوئی ہے۔
ادھر اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ جنگ سے تباہ شدہ فلسطینی سرزمین غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے دنیا کو ایسی کوششوں کرنے کی ضرورت ہوگی جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے نہیں دیکھی گئیں۔
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً سات ماہ کی جنگ کے دوران مسمار ہونے والے تمام گھروں کی تعمیرِ نو میں 80 سال لگ سکتے ہیں۔
یو این ڈی پی کے عرب ریاستوں کے ریجنل ڈائریکٹر عبداللہ الداری نے اردن میں ایک بریفنگ میں بتایا کہ تباہی بہت بڑے پیمانے پر ہوئی ہے اور یہ بے مثال ہے۔
فورم