رسائی کے لنکس

عالمی عدالت ِانصاف: وہیل مچھلیوں سے متعلق کیس کی سماعت کا آغاز


آسٹریلیا نے جنوبی بحر میں جاپان کے سالانہ وہیل مچھلی کے شکار پر قانونی کارروائی کا آغاز 2010ء میں شروع کیا تھا۔ آسٹریلیا کی جانب سے جاپان کے اس اقدام کو بحر ِ قطب جنوبی میں ہزاروں وہیل مچھلیوں کا ’غیر قانونی‘ اور ’غیر ضروری‘ شکار قرار دیا گیا تھا۔

ہالینڈ کے شہر ہیگ میں عالمی عدالت برائے انصاف میں بدھ کے روز جاپان کے خلاف آسٹریلیا کی جانب سے دائر کردہ کیس کی سماعت کا آغاز کر دیا گیا۔ آسٹریلیا نے یہ کیس جاپان پر بحر ِ قطب جنوبی میں وہیل مچھلی کے شکار کے سالانہ پروگرام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دائر کیا ہے۔ آسٹریلین حکومت کو توقع ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف جاپان کی جانب سے وہیل مچھلی کے شکار کے پروگرام پر پابندی عائد کرے گی۔ دوسری جانب جاپان کی جانب سے وہیل مچھلی کے شکار کے پروگرام کا بھرپور دفاع کیے جانے کی توقع ہے۔

آسٹریلیا نے جنوبی بحر میں جاپان کے سالانہ وہیل مچھلی کے شکار پر قانونی کارروائی کا آغاز 2010ء میں شروع کیا تھا۔ آسٹریلیا کی جانب سے جاپان کے اس اقدام کو بحر ِ قطب جنوبی میں ہزاروں وہیل مچھلیوں کا ’غیر قانونی‘ اور ’غیر ضروری‘ شکار قرار دیا گیا تھا۔

آسٹریلیا کے مطابق وہیل مچھلی کا یہ شکار عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

دوسری طرف جاپان کا کہنا ہے کہ وہیل مچھلی کے شکار کا پروگرام قانونی ہے اور یہ کہ جاپان کے پاس وہیل مچھلیوں کے اس سالانہ شکار کے پروگرام کے لیے ٹھوس سائنسی اور ثقافتی توجیہات موجود ہیں۔ جاپان کا کہنا ہے کہ اس نے وہیل مچھلیوں کے شکار کے لیے خود کو ’سائنسی منظوری‘ دے رکھی ہے جو کہ ’عالمی وہیلینگ کمیشن‘ کی اصولوں کے مطابق ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی عدالت ِ انصاف آسٹریلین موقف کی تائید کرتی ہے تو وہ جاپان کو وہیل مچھلیوں کے شکار سے یکسر منع کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر ڈونلڈ رُوتھ ویل کہتے ہیں کہ، ’آسٹریلیا وہیل مچھلیوں کے سالانہ شکار پر مکمل پابندی چاہتا ہے۔ لیکن بالفرض اگر کورٹ نے کوئی ایسا فیصلہ بھی دیا جس میں جاپان کے سائنسی تحقیقی پروگرام کے لیے ایک خاص تعداد تک وہیل مچھلیوں کے شکار کی اجازت دی گئی، تو یہ تعداد اتنی کم ہوگی کہ جاپان وہیل مچھلیوں کے شکار سے متعلق پروگرام جاری نہیں رکھ سکے گا۔‘

گذشتہ ربع صدی سے تجارتی مقاصد کے لیے وہیل مچھلیوں کے شکار پر پابندی عائد ہے۔ لیکن جاپان ہر برس تقریباً ایک ہزار وہیل مچھلیوں کا شکار تحقیقی مقاصد کی مَد میں کرتا ہے۔

جاپان کی وزارت ِ داخلہ کا کہنا ہے کہ وہیل مچھلیوں کا شکار ’حیاتیاتی پیمانے‘ جانچنے کے لیے ضروری ہیں۔ وہیل مچھلیوں کے شکار سے ان کی عمر، بناوٹ، جنسی افعال اور ان میں حمل وغیرہ کی شرح معلوم کرنے کا موقع ملتا ہے۔

جاپان کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ وہیل مچھلیوں کے شکار سے متعلق سالانہ پروگرام ماحولیات پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتا۔ جاپان اس بات کو بھی نہیں چھپاتا کہ وہیل مچھلیوں کے شکار کے بعد وہیل مچھلیاں کو گوشت تجارتی بنیادوں پر بیچا جاتا ہے۔ مگر جاپان اس کی توجیہہ یہ پیش کرتا ہے کہ جاپان میں وہیل مچھلی کا گوشت کھانا ایک پرانی روایت ہے۔

عالمی عدالت ِ انصاف میں نیوزی لینڈ، آسٹریلیا کے موقف کی حمایت کرے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مد میں کوئی بھی فیصلہ اس برس کے آخر تک متوقع ہے۔

XS
SM
MD
LG