آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن نے کہا ہے کہ وہ چین کی جانب سے نئے سیکیورٹی قانون کے نفاذ کے بعد ہانگ کانگ کے شہریوں کو آسٹریلیا میں نئی زندگی شروع کرنے کا موقع دینے کے لیے مختلف اقدامات کر رہے ہیں جن میں ویزے کی مدت میں پانچ سال کی توسیع بھی شامل ہے۔
اسکاٹ موریسن نے ہانگ کانگ کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ معطل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق آسٹریلوی وزیرِ اعظم نے جمعرات کو دارالحکومت کینبرا میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہانگ کانگ میں گزشتہ ہفتے جو نیا سیکیورٹی قانون نافذ کیا گیا ہے، اس سے حالات تبدیل ہو گئے ہیں جن کے پیشِ نظر آسٹریلیا ہانگ کانگ کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ معطل کر دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہانگ کانگ کے شہری کسی دوسری جگہ نقل مکانی کا سوچ رہے ہیں جہاں وہ اپنی نئی زندگی شروع کر سکیں اور اپنی صلاحیتوں اور کاروبار کو وہاں منتقل کر سکیں۔
اسکاٹ موریسن نے ہانگ کانگ کے شہریوں کے لیے کیے جانے والے ویزا اقدامات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ہانگ کانگ کے وہ طلبہ جو آسٹریلیا سے گریجویٹ ہو چکے ہیں، ان کے پاس موقع ہے کہ وہ پانچ سال مزید یہاں رہ کر آسٹریلیا کی مستقل شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہانگ کانگ کے وہ شہری جو عارضی 'ورک ویزا' پر آسٹریلیا میں مقیم ہیں، وہ بھی اپنے ویزا کی مدت میں پانچ سال کی توسیع کے اہل ہیں جس کے بعد وہ مستقل شہریت کے لیے بھی اپلائی کر سکتے ہیں۔
آسٹریلوی وزیرِ اعظم نے بتایا کہ ہانگ کانگ کے 10 ہزار شہری آسٹریلیا میں مقیم ہیں جو 'اسٹوڈینٹ ویزا' یا عارضی 'ورک ویزا' پر آسٹریلیا میں رہ رہے ہیں۔
چین کی جانب سے ہانگ کانگ میں سخت قانون کے نفاذ کے بعد آسٹریلیا ہجرت کے خواہش مند ہانگ کانگ کے شہریوں اور وہاں واپس نہ جانے کے خواہش مندوں کو شہریت کی پیشکش کرنے والا دوسرا ملک ہے۔ اس سے قبل برطانیہ نے ہانگ کانگ کے ان 30 لاکھ شہریوں کو برطانوی شہریت کی پیشکش کی تھی جو 1997 کے معاہدے کے تحت برطانیہ کی شہریت کے اہل ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور دیگر بڑے کاروبار جن کے ہیڈ آفس ہانگ کانگ میں ہیں، آسٹریلیا نے اُنہیں بھی پیش کش کی ہے کہ وہ اپنے کاروبار آسٹریلیا منتقل کر دیں۔
آسٹریلیا نے اپنے کاروبار منتقل کرنے والے اداروں کو کاروباری فوائد اور ان کے ملازمین کو ترجیحی ویزے دینے کی پیش کش بھی کی ہے۔
آسٹریلیا نے ہانگ کانگ کے لیے سفری ایڈوائزی میں بھی تبدیلیاں کی ہیں۔ ہانگ کانگ میں ایک لاکھ کے قریب آسٹریلوی شہری مقیم ہیں جو وہاں کام کرتے ہیں۔ آسٹریلیا نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ اگر انہیں نئے سیکیورٹی قانون پر تشویش ہے تو وہ ہانگ کانگ میں رہنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کریں۔
آسٹریلیا نے سفری ایڈوائزی میں اپنے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ نئے سیکیورٹی قانون کے نفاذ کے بعد ان کے لیے ہانگ کانگ میں خطرہ بڑھ گیا ہے اور اس قانون کے تحت انہیں بھی حراست میں لیا جا سکتا ہے۔
آسٹریلیا کی وزیرِ خارجہ مرائز پین نے امریکہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ اور کینیڈا کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ایک ٹیلی کانفرنس بھی کی ہے جس میں ہانگ کانگ کی موجودہ صورتِ حال اور نئے سیکیورٹی قانون کے نفاذ کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا تھا۔
چین کی جانب سے ہانگ کانگ میں نئے سیکیورٹی قانون کے نفاذ کے اقدام پر مختلف ملک تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کینیڈا نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ ہانگ کانگ کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ معطل کر دے گا اور ہانگ کانگ کے شہریوں کے لیے امیگریشن کے معاملات میں تیزی لائے گا۔
واضح رہے کہ ہانگ کانگ چین کا نیم خود مختار علاقہ ہے جو ماضی میں برطانیہ کی کالونی بھی رہا ہے۔ برطانیہ نے 1997 میں ایک معاہدے کے تحت ہانگ کانگ کا انتظام چین کے سپرد کیا تھا اور معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ ہانگ کانگ کی خود مختاری کا تحفظ کیا جائے گا۔
تاہم ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حق میں مظاہروں اور احتجاجی تحریک کے بعد چین نے وہاں ایک سخت قانون نافذ کیا ہے جس کے تحت حکومت مخالفین کو کڑی سزائیں دی جا سکیں گی۔
نیا سیکیورٹی قانون ہانگ کانگ کے شہریوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ علیحدگی سے متعلق کسی بھی قسم کی سرگرمیوں میں شرکت، علیحدگی کے نعرے لگانے یا بینرز اور جھنڈوں کو تھامنے سے گریز کریں۔ بصورتِ دیگر وہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اس قانون پر سخت تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں جب کہ اس کی وجہ سے ہانگ کانگ میں جمہوریت کے لیے سرگرم حلقے بھی انتقامی کارروائی کا نشانہ بننے کے خطرے سے دوچار ہیں۔