آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تعمیرات سے متعلق شعبہ جات میں طلبا کے مقابلے میں طالبات کو کم نمبرز پر بھی داخلہ دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی (یو ٹی ایس) کی انتظامیہ بعض شعبہ جات میں طلبا و طالبات کی تعداد میں عدم مساوات کا مسئلہ حل کرنے کی خواہاں ہے۔
یوٹی ایس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انجینئرنگ، آئی ٹی اور کنسٹرکشن مینجمنٹ ایسے شعبے ہیں جن میں خواتین بھی مسائل کا سامنا کرتی ہیں اور وہ اس حوالے سے کچھ کرنے کی بھی خواہش رکھتی ہیں۔
واضح رہے کہ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی میں منتخب شعبہ جات میں داخلے کے لیے طالبات کو دس پوائنٹس اضافی دیے جائیں گے۔ ان دس پوائنٹس سے وہ طالبات بھی ان شعبہ جات میں داخلہ لے سکیں گی جن کے چند نمبرز کی کمی سے داخلے سے محروم رہ جانے کا اندیشہ ہو۔
یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی امید کا اظہار کر رہی ہے کہ دس اضافی پوائنٹس ملنے سے ان شعبوں میں زیادہ طالبات کے داخلہ لینے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
برطانوی اخبار 'گارجین' کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کی ڈائریکٹر آرتی اگروال نے کہا ہے کہ اس اقدام سے داخلے کے معیار کو کم نہیں کیا جا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی ایسی طالبات کو داخلہ نہیں دے گی جن کی تعلیمی کارکردگی بہتر نہ ہو۔ طالبات کو ڈگری کے حصول کے لیے تمام طے شدہ قوائد پر عمل کرنا ہوگا۔
انہوں نے یونیورسٹی کے اقدام کو انجینئرنگ کے شعبے میں جنسی مساوات کی کوششوں کا حصہ قرار دیا۔
'انجینئرز آسٹریلیا' کے مطابق آسٹریلیا میں 84 فی صد انجینئر مرد جبکہ 13 فی صد خواتین ہیں۔
یو ٹی ایس کی ڈائریکٹر آرتی اگروال کے مطابق یونیورسٹی میں مکینیکل انجینئرنگ میں پہلے طالبات کے داخلے 8 فی صد تک ہوتے تھے تاہم اضافی پوائنٹس سے یہ تعداد 20 فی صد ہونے کی امید ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سِول انجینئرنگ میں طالبات کے داخلے 16 فیصد سے بڑھ کر 20 فی صد جبکہ کمپیوٹر سائنس میں داخلے 10 فی صد سے بڑھ کر 19 فی صد ہو سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ 'انجینئرز آسٹریلیا' کی ایک رپورٹ میں انجینئرنگ کے شعبہ جات میں طالبات کے نہ آنے کی وجہ کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ آسٹریلیا میں 12 سال کی تعلیم میں فزکس پڑھنے والی طالبات کی شرح 6 فی صد سے بھی کم ہے۔
انجینئرز آسٹریلیا نے یونیورسٹی کے فیصلے کی حمایت کی۔
دوسری جانب یونیورسٹی کے اس اقدام کو سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی خواتین ہی اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔اکثر خواتین سوشل میڈیا پر سوال اٹھا رہی ہیں کہ اس کا یہ مطلب اخذ کیا جائے کہ خواتین مردوں سے کم ذہین ہیں۔
دوسری جانب کئی افراد اس اقدام کو ایک مثبت فیصلہ بھی قرار دے رہے ہیں کہ اس سے ایسے شعبہ جات میں جنسی مساوات ممکن ہو سکے گی جنہیں صرف مردوں کا شعبہ قرار دیا جاتا ہے۔