پاکستان میں توہین رسالت کا قانون جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہونے والی آئینی ترامیم کے بعد سے متنازع رہا ہے لیکن گزشتہ سال اس قانون نے ایک بار پھر اس وقت بین الاقوامی توجہ حاصل کر لی جب چودہ سالہ رمشا مسیح پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام لگا کر اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ عدالت نے رمشا کی طبی رپورٹ جس میں اسے ’ڈاؤن سنڈروم‘ یعنی سست ذہنی نشونما کا شکار بتایا گیا تھا، کی بنیاد پر بچوں کی جیل منتقل کردیا اور بعد میں مقدمے کے ایک نئے رخ اختیار کرجانے پر رہا کردیا تھا۔
3 نومبر دوہزار بارہ کو شائع ہونے والی وائس آف امریکہ کےایک آرٹیکل کے مطابق ، تحقیقات کے بعد پاکستانی پولیس نے اس امام مسجد خالد جدون کو گرفتار کر لیا جس کے کہنے پر اس کم سن عیسائی لڑکی کو مقدّس آیات کی توہین کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس مولوی کے خلاف یہ قدم اس کے معاون کی حافظ زبیر کے اس بیان کے بعد اٹھایا گیا جس میں اس نے کہا تھا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ مولوی نے جلے ہوئے کاغذات کے ساتھ قرآن کے صفحات ملا دیے تھے۔
اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ رمشا مسیح کا مقدمہ پاکستان میں اس نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں تھا۔ ماضی میں توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے بنا کر کتنے بے قصور افراد کو پھانسی کے تختے پر چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ توہین رسالت کا قانون ملک میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم کا ایک قانونی جواز بن رہا ہے۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق 1988 سے اب تک قرآن کی بے حرمتی کے ایک ہزار سے زائد اور توہین رسالت کے پچاس سے زائد مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ جن میں سے اکثر مقدمات میں عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ دیا۔ اعلیٰ عدالتوں نے ،ماتحت عدالتوں کے کئی فیصلوں کو ثبوت کی کمی اور بدنیتی پر مبنی ہونے کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا لیکن اس کے باوجود اب تک بارہ افراد کو پھانسی کی سزا سنائی جا چکی ہے، ان میں زیادہ تر افراد کا تعلق مسیحی برادری سے تھا۔
دو ہزار دس میں یو این ایچ سی آر کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں ایسے کئی واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جس میں اقلیتوں کے خلاف توہین رسالت کے کئی جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں۔ ان واقعات کے پیش نظر توہین رسالت کے قوانین انسانی حقوق کی تنظیموں اور انصاف کے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
جبکہ ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ توہین رسالت کے مقدمے کے فیصلے سے قبل ہی ملزمان کو قتل کر دیا گیا۔ ایسے ہی قتل کی کارروائی 1994 کو دیکھنے میں آئی جب توہین رسالت کے ملزم منصور مسیح کو لاہور ہائی کورٹ میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا جبکہ اسی سال گوجرانوالہ میں ایک شخص کو لوگوں کے ہجوم نے پتھر مار مار کے ہلاک کر دیا۔
توہین رسالت کا قانون نا صرف کسی بھی غیر مسلم کو کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر پھانسی کے تختے پر چڑھا سکتا ہے بلکہ توہین رسالت کا بہانہ بنا کر اقلیتوں کا قتل عام کرنے والی انتہا پسند جماعتوں کی کارروائیوں کو ہوا بھی دے رہا ہے۔
توہین ریاست کے قانون میں ترمیم پر بحث اپنی جگہ لیکن اس قانون کا مذاق بنا کر جھوٹے مقدمات بنانے والے افراد کی بد نیتی ثابت ہونے پر ان سے جواب ضرور طلب کیا جانا چاہیئے تاکہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔
on Face Book اب وردہ بولے گی Follow
3 نومبر دوہزار بارہ کو شائع ہونے والی وائس آف امریکہ کےایک آرٹیکل کے مطابق ، تحقیقات کے بعد پاکستانی پولیس نے اس امام مسجد خالد جدون کو گرفتار کر لیا جس کے کہنے پر اس کم سن عیسائی لڑکی کو مقدّس آیات کی توہین کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس مولوی کے خلاف یہ قدم اس کے معاون کی حافظ زبیر کے اس بیان کے بعد اٹھایا گیا جس میں اس نے کہا تھا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ مولوی نے جلے ہوئے کاغذات کے ساتھ قرآن کے صفحات ملا دیے تھے۔
اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ رمشا مسیح کا مقدمہ پاکستان میں اس نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں تھا۔ ماضی میں توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے بنا کر کتنے بے قصور افراد کو پھانسی کے تختے پر چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ توہین رسالت کا قانون ملک میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم کا ایک قانونی جواز بن رہا ہے۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق 1988 سے اب تک قرآن کی بے حرمتی کے ایک ہزار سے زائد اور توہین رسالت کے پچاس سے زائد مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ جن میں سے اکثر مقدمات میں عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ دیا۔ اعلیٰ عدالتوں نے ،ماتحت عدالتوں کے کئی فیصلوں کو ثبوت کی کمی اور بدنیتی پر مبنی ہونے کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا لیکن اس کے باوجود اب تک بارہ افراد کو پھانسی کی سزا سنائی جا چکی ہے، ان میں زیادہ تر افراد کا تعلق مسیحی برادری سے تھا۔
دو ہزار دس میں یو این ایچ سی آر کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں ایسے کئی واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جس میں اقلیتوں کے خلاف توہین رسالت کے کئی جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں۔ ان واقعات کے پیش نظر توہین رسالت کے قوانین انسانی حقوق کی تنظیموں اور انصاف کے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
جبکہ ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ توہین رسالت کے مقدمے کے فیصلے سے قبل ہی ملزمان کو قتل کر دیا گیا۔ ایسے ہی قتل کی کارروائی 1994 کو دیکھنے میں آئی جب توہین رسالت کے ملزم منصور مسیح کو لاہور ہائی کورٹ میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا جبکہ اسی سال گوجرانوالہ میں ایک شخص کو لوگوں کے ہجوم نے پتھر مار مار کے ہلاک کر دیا۔
توہین رسالت کا قانون نا صرف کسی بھی غیر مسلم کو کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر پھانسی کے تختے پر چڑھا سکتا ہے بلکہ توہین رسالت کا بہانہ بنا کر اقلیتوں کا قتل عام کرنے والی انتہا پسند جماعتوں کی کارروائیوں کو ہوا بھی دے رہا ہے۔
توہین ریاست کے قانون میں ترمیم پر بحث اپنی جگہ لیکن اس قانون کا مذاق بنا کر جھوٹے مقدمات بنانے والے افراد کی بد نیتی ثابت ہونے پر ان سے جواب ضرور طلب کیا جانا چاہیئے تاکہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔
on Face Book اب وردہ بولے گی Follow