بھارتی سپریم کورٹ نے ایودھیا کی متنازع بابری مسجد رام مندر کی اراضی کی ملکیت سے متعلق مقدمے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعے جمعے کے روز سنائے جانے والے فیصلے پر ایک ہفتے کا حکمِ امتنائی دیا ہے۔
یہ روک رمیش چندرتریپاتی کی اُس عذرداری کی سماعت پر لگائی گئی جس میں اُنھوں نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ اِس فیصلے سے ملک میں فرقہ وارانہ فضا کے خراب ہونے کے اندیشے، ملک میں ہونے والے کامن ویلتھ کھیل ، بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات اور بھارتی کشمیر اور نکسل زدہ ریاستوں میں تشدد آمیز کارروائیوں کے پیشِ نظر اور دونوں فریقوں کو مصالحت کی ایک اور کوشش کا موقع دینے کے مقصد سے فیصلہ ٹال دیا جائے۔
اِس سے قبل، الہ آباد ہائی کورٹ نے اُس عرضی کو مسترد کرتے ہوئے عرضی گزار پر جرمانہ عائد کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے تمام فریقوں اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا ہے اور 28ستمبر کو دوبارہ سماعت کی تاریخ مقرر کی ہے۔
عدالت کے اِس فیصلے پر ہندو اور مسلم دونوں فریقوں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ پورا ملک فیصلہ سننے کے لیے تیار تھا اِسے ٹالا جانا غیر مناسب ہے۔ آل انڈیا پرسنل لا بورڈ کی بابری مسجد کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ فیصلے کو موخرکرنا مناسب نہیں ہے۔ غیر یقینی کا ماحول بنا ہوا ہے وہ ختم ہوجاتا اگر یہ فیصلہ کل آجاتا، جب کہ، ایک ہندو فریق مہاسبھا کے وکیل رنجنا اگنی ہوتری نے اِسے مفاد پرست سیاست دانوں کی کارستانی قرار دیا۔
جِن دو ججوں کی بینچ نے روک لگائی ہے اُن میں سے ایک جج اِس کے حق میں نہیں تھے۔
اُدھر، الہ آباد ہائی کورٹ کی جِس بینچ کو فیصلہ سنانا ہے اُس کے ایک جج اِس ماہ کے اواخر میں سبک دوش ہو رہے ہیں۔ اگر اُن کی سبک دوشی سے قبل فیصلہ نہیں آیا تو ایک نیا بینچ قائم ہوگا اور وہ اس مقدمے کی بہت سی کارروائیاں از سرِ نو شروع کرے گا جِس سے فیصلے میں مزید تاخیر ہوجائے گی۔