مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے قافلے اسلام آباد میں داخل ہو گئے ہیں، جہاں اپوزیشن جماعتیں جمعے کو جلسہ کریں گی۔
جمیعت علما اسلام ف کے آزادی مارچ کے اسلام آباد میں داخلے کے وقت کھنہ پل سے گر کر زخمی ہونے والے دو شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت، 13 سالہ طلحہ اور 40 سالہ شفقت عباسی کے نام سے ہوئِی ہے۔ طلحہ منیر راولپنڈی اور شفقت عباسی برما ٹاون کا رہائشی ہے۔ جب کہ دو افراد زخمی ہیں۔ چاروں افراد کھنہ پل پر سے ایکسپریس ہائی وے سے گزرنے والے آزادی مارچ کو دیکھ رہے تھے۔
آزادی مارچ کے دوران حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان اختلافات بھی کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے جلسے کے شیڈول میں تبدیلی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے طے شدہ پروگرام کے تحت ہی جلسہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے کہ ابتداً متحدہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے 31 اکتوبر کو پشاور موڑ پر جلسہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دوسری جانب جمعیت علماء اسلام کا یہ کہنا ہے کہ دور دراز سے آنے والے قافلوں کی آمد میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ لہذٰا، اب جلسہ جمعے کے بعد ہی شروع ہو گا۔
مسلم لیگ ن نے بھی رحیم یار خان ٹرین حادثے کے پیش نظر جلسہ جمعے تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
س سے قبل مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ رحیم یارخان ٹرین حادثے کے باعث آزادی مارچ منسوخ کر دیا گیا ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما عبدالغفور حیدری نے مریم اورنگزیب کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے تھا کہ آزادی مارچ سے متعلق غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ آزادی مارچ ملتوی نہیں ہوا۔ تاہم، جلسے کا باقاعدہ آغاز جمعے کی نماز کے بعد ہو گا۔
دوسری جانب مارچ میں شامل عوامی نیشنل پارٹی نے بھی مسلم لیگ ن کی ترجمان کے دعوے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کا کہنا تھا کہ اے این پی کے کارکن اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ لہذٰا، ہم بدھ کو ہی جلسہ کریں گے۔
اسفند یار ولی کا کہنا تھا کہ ہمیں رہبر کمیٹی کے نئے فیصلے سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ احتجاجی تحریک میں کوئی آگے ہوتا تو کوئی پیچھے۔ انہوں نے کہا جو فیصلے ایک بار ہو جائیں وہ تبدیل نہیں ہوتے۔ آج کے جلسے کا پلان ہمیں رہبر کمیٹی نے دیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ رہبر کمیٹی میں 31 اکتوبر کو جلسہ کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے یکم نومبر کو رحیم یار خان میں پیپلز پارٹی کے جلسے سے خطاب کرنا ہے۔ اگر وقت ملا تو وہ جمعے کو بھی اسلام آباد میں جلسے میں شرکت کریں گے۔
مریم اورنگزیب کے بیان کے بعد مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے رحیم یار خان میں ٹرین حادثے کے باعث جمعیت علماء اسلام سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کا شیڈول جلسہ کل تک ملتوی ہونے کا اعلان کیا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ٹرین کے اندوہناک حادثے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر جلسہ موخر کیا گیا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق، مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ آزادی مارچ جلسہ بھی ہے اور دھرنا بھی اور تمام قافلے ترتیب کے مطابق اسلام آباد پہنچیں گے۔
حکومت کا ردعمل
اپوزیشن جماعتوں کے اختلافات پر وزیر اعظم پاکستان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اپوزیشن ایک دوسرے کے ساتھ سیاست کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی ’کنفیوژڈ اپروچ‘ اور بھٹکی ہوئی سوچ آج پوری قوم نے دیکھ لی۔
جمعیت علماء اسلام کے ترجمان کے مطابق پنجاب کے علاوہ خیبرپختونخوا سے بھی قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت نے اپوزیشن کو پشاور موڑ کے قریب جلسے کی اجازت دے رکھی ہے۔
عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ قافلے کے راستوں میں آنے والے پیٹرول پمپس کو قافلے میں شامل گاڑیوں کو تیل فراہم کرنے سے روکا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد کی جانب آنے والی متعدد سڑکیں بھی بند کر دی گئی ہیں۔ عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ ہمارے کارکن کنٹینرز اور خاردار تاروں سے نہیں ڈرتے۔ عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ ہم چار روز سے پرامن ہیں اور واضح کر چکے ہیں کہ تصادم نہیں چاہتے۔
آزادی مارچ کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تعلیمی ادارے جمعے کو بھی بند رکھے جائیں گے۔ سیکریٹری پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے مطابق، یہ فیصلہ بچوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیا کیا گیا ہے۔
اس سے قبل شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’’ملک داؤ پر لگا ہوا ہے۔ جب کہ حکومت نے اپوزیشن کو احتساب کے نام پر دیوار سے لگا دیا ہے۔ یہ ڈرامہ اب ختم ہونا چاہیے۔‘‘
ان کے بقول، وہ جمہوریت اور آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں جس کے لیے حزب اختلاف کی تمام جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کا آزادی مارچ 27 اکتوبر کو کراچی سے روانہ ہوا تھا۔ یہ مارچ سکھر، رحیم یارخان، ملتان، ساہیوال، لاہور سے ہوتا ہوا گوجر خان پہنچا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ جلسے کے دوران وہ آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔