پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر بیٹسمین معین خان کے صاحبزادے اعظم خان جمعرات کی شب پاکستان سپر لیگ کے افتتاحی میچ میں جب اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف بیٹنگ کرنے آئے تو کوئٹہ کی تین وکٹیں صرف 26 رنز پر گر چکی تھیں۔
ایسے میں کرکٹ شائقین کے ذہنوں میں معین خان کا وہ بیان بھی تھا جس میں اُنہوں نے اپنے 21 سالہ بیٹے کو 'ٹرمپ کارڈ' قرار دیا تھا۔
معین خان کے اس دعوے پر تو گویا طوفان بپا ہو گیا تھا اور ان کے صاحبزادے کو بھی 'پرچی' کے طعنے ملنے لگے تھے۔
اعظم خان پر کوئٹہ کو میچ جتوانے کے علاوہ اقربا پروری کا دھبہ صاف کرنے کا بوجھ بھی تھا۔ اور وہ بھی ایسے وقت میں جب کوئٹہ کو اُن کی عمدہ بیٹنگ کی اشد ضرورت تھی۔
بھاری بھرکم اعظم خان کریز پر آئے تو پراعتماد دکھائی دیے۔ لیکن ڈگ آؤٹ میں بیٹھے اُن کے والد معین خان کی جانب کیمرا جاتا تو اُن کے چہرے پر تناؤ واضح دکھائی دیتا تھا۔
شاداب خان کی شارٹ گیند پر جب اعظم خان نے پل کیا تو اسلام آباد یونائیٹڈ کے حسین طلعت وقت پر گیند کے قریب نہ پہنچ سکے۔ اور یوں ڈراپ کیچ ہی فیصلہ کُن ثابت ہوا۔ اس کے بعد اعظم خان کے بلے نے خوب رنز اُگلے اور کوئٹہ کو فتح کے قریب پہنچا دیا۔
اعظم خان نے 50 رنز مکمل کیے تو والد معین خان نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ اور وہ کیوں داد نہ دیتے کہ اعظم خان نے ناقدین کو خاموش جو کرا دیا تھا۔
اعظم خان نے صرف 33 گیندوں پر 59 رنز کی اننگز کھیلی جس میں تین چھکے اور پانچ چوکے بھی شامل تھے۔
کرکٹ ماہرین کے مطابق پاکستان میں 'پرچی سسٹم' رائج تو رہا ہے لیکن اس کی وجہ سے اہلیت رکھنے والے بعض ایسے کھلاڑیوں کے کیریئر پر بھی منفی اثر پڑتا رہا ہے جن کے عزیز کرکٹ بورڈ یا ٹیم سے منسلک تھے۔
ایسا ہی معاملہ کراچی سے ہی تعلق رکھنے والے فیصل اقبال کا تھا جو پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ جاوید میانداد کے بھانجے ہیں۔
فیصل اقبال نے اُس وقت اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا جب اُن کے ماموں جاوید میانداد پاکستان ٹیم کے ہیڈ کوچ تھے۔ کرکٹ حلقوں کا کہنا ہے کہ جاوید میانداد نے بظاہر تنقید سے بچنے کے لیے فیصل اقبال کو ٹیم میں شامل کرنے سے گریز کیا تھا جس کا فیصل اقبال کے کیریئر پر منفی اثر پڑا۔
پاکستان ٹیم کے اوپنر امام الحق بھی زیرِ عتاب رہے۔ ورلڈ کپ 2019 کے لیے اُن کے انتخاب کو بھی 'پرچی' کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر اپنے ہی بھانجے کو منتخب کرنے پر اُس وقت کے چیف سلیکٹر انضمام الحق کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔
سابق چیئرمین پی سی بی توقیر ضیا کے صاحبزادے جنید ضیا پر بھی تنقید کی جاتی رہی کہ اُن کے والد چیئرمین ہیں۔ لہذٰا اس بنیاد پر اُنہیں ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اس تنقید کے بعد ایک، دو میچ کھیلنے کے بعد ہی جنید ضیا کے لیے قومی ٹیم کے دروازے بند ہو گئے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق اوپنر عمران فرحت پر بھی یہ تنقید کی جاتی رہی کہ وہ اپنے سسر و سابق چیف سلیکٹر محمد الیاس کے باعث ٹیم میں ہیں۔ حالاں کہ عمران فرحت کے سسر جب چیف سلیکٹر بنے اُس وقت تک عمران فرحت اپنے کیریئر کا آدھا سفر مکمل کر چکے تھے۔
کرکٹ ماہرین کے مطابق ماضی میں عمران خان، ماجد خان، جہانگیر خان اور حنیف محمد اور اُن کے بھائی بھی پاکستان کے لیے کرکٹ کھیلے۔ لیکن اُن پر تنقید اس لیے نہیں ہوئی کیوں کہ اُس وقت ان کے بڑوں میں سے کوئی کرکٹ بورڈ کے اعلٰی عہدوں پر فائز نہیں تھا۔
بعض کرکٹ ماہرین اس تنقید کو بلاجواز بھی قرار دیتے ہیں۔ اُن کا یہ استدلال ہے کہ اگر ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر، فوجی کا بیٹا فوجی یا بیورو کریٹ کا بیٹا بیورو کریٹ بن سکتا ہے۔ تو کرکٹر کا بیٹا کرکٹر کیوں نہیں بن سکتا۔
لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ گراؤنڈ میں کارکردگی بھی دکھائی جائے۔ جیسا کہ اعظم خان نے پی ایس ایل کے پانچویں ایڈیشن کے افتتاحی میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف دکھائی۔