آذربائیجان میں ایک صحافی کو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جو ناقدین کے بقول تیل کے ذخائر سے مالا مال سابق سوویت ریاست میں حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کو ظاہر کرتی ہے۔
حزب اختلاف کے ایک اخبار آزادلگ کے صحافی اور حزب مخالف کی جماعت پاپولر فرنٹ کے کارکن سیمر حازی کو سب سے پہلے گزشتہ سال اگست میں دنگا فساد کرنے کے جرم میں جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔
حازی کے وکیل عادل اسماعیلوف نے خبررساں ادارے رائیٹرز کو بتایا کہ "یہ فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے اور سارا مقدمہ جعل سازی پر مبنی ہے"۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے گی۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں صدر الہام علی اوف کی حکومت پر اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے اور ان کو جیل میں بند کرنے کا الزام عائد کرتی ہیں جبکہ وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
کئی دوسرے صحافی اور حقوق کے سرگرم کارکنوں کو گزشتہ سال ٹیکس چوری، غیر قانونی کاروباری سرگرمیوں اور دنگا فساد کے الزامات کے تحت قید کی سزائیں دی گئی تھیں۔ صفائی کے وکلاء کا موقف ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد اور سیاسی محرکات پر مبنی ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے جمعرات کو شائع ہونے والی سالانہ عالمی رپورٹ میں کہا کہ آذربائیجان کی حکومت نے 2014ء میں اس پر تنقید کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی میں اضافہ کیا جس کی وجہ سے حالات مزید ابتر ہو گئے، جہاں پہلے ہی انسانی حقوق کی صورت حال خراب ہے۔
57 ممالک کی یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم (اوایس سی ای) نے آذربائیجان میں قید تمام صحافیوں اور آزادی اظہار کے علمبردار کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
سابق روسی جمہوریہ آذربائیجان کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے 90 لاکھ شہریوں کو آزادی اظہار کے مکمل حقوق اور پریس کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ مغربی ممالک نے گیس اور تیل کی فراہمی کے لیے روس کی بجائے آذربائیجان کو ایک متبادل ملک کے طور پر قبول کیا ہے۔