سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے بغیر شاید عرب دنیا کا موسم بہار حقیقت نہیں بن سکتا تھا۔ جیسے جیسے نوجوانوں نے کمپیوٹرز کے ذریعے اپنی ناراضگی اور بے اطمینانی اظہار کرنا شروع کیا بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھروں سے نکل کر تبدیلی کا مطالبہ کرنے سڑکوں پر نکل آئے۔
فیس بک ’’انقلاب‘‘ کی اصطلاح مصر میں صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹے جانے کے بعد بنائی گئی۔ بحرین میں سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعے لوگوں پر زور دیا گیا کہ وہ 14 فروری کے یومِ غیض و غضب میں اور اس کے بعد جمہوریت کے حمایت میں مظاہروں میں شرکت کریں ۔
بحرین میں مناما کا پرل راؤنڈ اباؤٹ جلد ہی قاہرہ کا تحریر اسکوائر بن گیا جہاں احتجاج کرنے والوں نے، جو بیشتر شیعہ مسلمان تھے، کیمپ لگا دیے اور جمہوریت کی جدو جہد شروع کر دی۔
لیکن مصر کے برعکس بحرین کے لوگوں کے مطالبات پورے نہیں کیے گئے۔ سنّی حکومت نے خلیج کے ہمسایہ ملکوں کی فوجی مدد سے عوامی تحریک کو کچل ڈالا اور اطلاعات کے مطابق جمہوریت کے لیے آواز بلند کرنے والوں کا پتہ چلانے اور انہیں سزا دینے کے لیے سوشل میڈیا تک رسائی کو استعمال کیا۔
انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق حزبِ اختلاف کے 1000 سے زیادہ حامیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ بہت سے بحرینی کہتے ہیں کہ انہیں سوشل میڈیا استعمال کرنے سے ڈر لگتا ہے۔ الجزیرہ ٹیلیویژن پر حال ہی میں ایک ڈاکومینٹری دکھائی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح فیس بُک کے ایک صفحے سے ایک 20 سالہ شیعہ عورتوں کا پتہ چلایا گیا جسے مبینہ طور پر گرفتار کر لیا گیا اور اذیتیں دی گئیں۔
اس صفحے کو وزِٹ کرنے والوں سے کہا گیا کہ وہ اس عورت کا نام اور کام کی جگہ بتا دیں، اور باقی کام حکومت کو کرنے دیں۔
بحرین ٹرانسپرنسی سوسائٹی کے چیئرمین عبدالنبی الکری کے مطابق اپنے مخالفین کا پتہ چلانے کے لیے حکومت سوشل میڈیا کا جس طرح استعمال کر رہی ہے اس سے ملک کے سنیوں اور شیعوں کے درمیان فاصلے اور بڑھ گئے ہیں۔ ’’اس طرح قومی اتحاد کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے اور ایک ساتھ کام کرنے والوں اور رہنے والوں یا ایک ہی کلب یا تنظیم کے ارکان کے درمیان شک و شبہ پیدا ہو رہا ہے۔ یہ بڑی تشویش کی بات ہے۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ بحرین کی 70 فیصد آبادی شیعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکمران سنی اقلیت انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھتی ہے۔ وہ برابر کے سلوک زیادہ نمائندہ حکومت اور نئے آئین کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال احتجاج شروع ہونے سے پہلے کے مقابلے میں بد تر ہو گئی ہے۔
ایک بحرینی جو اپنی شناخت خفیہ رکھنا چاہتے ہیں اور جنھوں نے کہا کہ ان کے نام کے بجائے صرف شروع کے حروف (ایس بی) استعمال کیے جائیں کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے بعض لوگوں کے مسائل اور زیادہ سنگین ہو گئے ہیں۔ ’’میں ایسے طالب علموں کے لیے کام کر رہا ہوں جنہیں 100 سے زیادہ اداروں سے خارج کر دیا گیا ہے جن کے تعلیمی وظائف روک دیے گئے ہیں اور یہ سب فیس بک اور بلیک بیری کے پیغامات کی وجہ سے ہوا ہے۔ فیس بک کے بیشتر اسکرین شاٹس ان کے دوستوں سے لیے گئے تھے اور پھر تفتیشی کمیٹیوں کے حوالے کر دیے گئے تھے۔‘‘
ایس بی یہ بھی کہتے ہیں کہ بحرین میں رہنے والے بہت سے لوگوں کے لیے اب کسی پر بھی اعتماد کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ’’میرے جاننے والے بیشتر شیعوں نے تمام سنیوں کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے نکال دیا ہے اور سنیوں نے بھی یہی کیا ہے۔ آپ اس تکلیف دہ احساس کا اندازہ نہیں کر سکتے جب آپ کا کوئی سب سے اچھا دوست کسی اس قسم کے فیس بُک پیج میں شامل ہو جاتا ہے جیسے " شیعہ غداروں کو مل جُل کر بے نقاب کرنا"۔ آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ دنیا جسے آپ جانتے تھے ختم ہو چکی ہے جیسے یہ سب کچھ جھوٹ تھا۔‘‘
صرف بحرین ہی ایسا ملک نہیں ہے جو حکومت کے مخالفین کا کھوج لگانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا ہے۔ شام کی سیکورٹی فورسز پر بھی الزام لگایا گیا ہے کہ وہ سرگرم کارکنوں کی شناخت کرنے اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ وہ کس سے خط و کتابت کرتے رہے ہیں فیس بُک اور ٹوئٹر جیسی سائٹس استعمال کرتی ہیں۔
کرینگٹن ملائن دبئی میں قائم اسپاٹ آن پبلک ریلیشنرز کے مینیجنگ ایڈیٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امکان یہی ہے کہ یہ رجحان جاری رہے گا۔ ’’
عرب موسم بہار کے شروع میں علاقے کی بہت سی حکومتوں کی نظر میں سوشل میڈیا اور آن لائن بات چیت کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ لیکن آج آن لائن عوامی جذبات پر نظر رکھنے پر کہیں زیادہ توجہ دی جا رہی ہے اور بعض کیسوں میں ایسے افراد کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے جن کے بارے میں حکام کا خیال ہے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔‘‘
لیکن دی نیکسٹ ویب کی مڈل ایسٹ ایڈیٹر نینسی میسئیی کہتی ہیں کہ نگرانی کے خطرے کے باوجود علاقے میں بہت سے حکومت مخالف لوگ آزادی کی جنگ کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے رہیں گے۔ ’’اگر آپ سوشل میڈیا سے ہٹ کر بھی دیکھیں کہ لوگ کس حد تک جانے کو تیار ہیں جیسا کہ آج کل شام میں ہو رہا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں اور ان کے لیے کتنے خطرات ہیں لیکن وہ پھر بھی یہ خطرہ مول لینے کو تیار ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ سوشل میڈیا کے ساتھ بھی بات بالکل ایسی ہی ہے۔ اگر یہ کوئی ایسا طریقہ ہے جسے وہ استعمال کر سکتے ہیں تو خطرات کے باوجود وہ اسے ضرور استعمال کریں گے۔‘‘
اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت بحرین بھی اسے استعمال کرتی رہے گی۔