سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک کے جائیداد کے بے حد مال دار شخص اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی طرف سے 250 ارب روپے کے عوض ملک بھر میں زمین سے متعلق مقدمات ختم کرنے کی پیشکش مسترد کردی ہے۔
بحریہ ٹاؤن عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کیس کی سماعت جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ بینچ میں ان کے ساتھ جسٹس فیصل عارب اور جسٹس منیب اختر بھی شامل تھے۔
بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اراضی گھپلوں کے 3 مقدمات میں ایک ہی جرمانہ دیں گے، بحریہ ٹاؤن نے عدالت کو پیشکش کی کہ وہ 200 ارب روپے کا جرمانہ دینے کو تیار ہیں۔ لیکن، عدالت نے پیشکش مسترد کر دی۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کراچی بحریہ ٹاؤن کو 2004 میں 285 ارب روپے جرمانہ عائد کیا گیا تھا، اگر جرمانے کی رقم 40 فیصد بڑھائی جائے تو رقم 300 ارب سے زائد بنتی ہے۔
اس موقع پر کمرہ عدالت میں موجود ملک ریاض اپنے وکیل علی ظفر کے قریب آئے اور کان میں کوئی بات کی، جس کے بعد علی ظفر نے کہا کہ ہم یہ پیشکش ڈھائی سو ارب کرنے کو تیار ہیں۔
اس پر جسٹس فیصل عارب غصہ میں آگئے اور بولے کیا آپ یہاں بولیاں لگا رہے ہیں؟ تحریری طور پر بتائیں کہ کیا کرنا ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ وکیل صاحب یہ کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے۔ ہم نیب کو کہتے ہیں کہ وہ ایک ہفتہ میں ریفرنس فائل کرے۔
اس پر علی ظفر گڑبڑا گئے اور عدالت سے درخواست کی کہ انہیں ایک ہفتے کا وقت دیا جائے۔
جرمانہ ادا کرنے کی بات پر جسٹس عظمت سعید نے ملک ریاض کے وکیل سے کہا کہ آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ 16000 کنال سے زائد زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ شرم نہیں تھوڑی بہت آ رہی۔ اس بات پر علی ظفر کے قریب کھڑے ملک ریاض پیچھے ہٹ گئے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کراچی، اسلام آباد اور مری کی مناسب طریقے سے الگ الگ پیشکش دیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اتنی بڑی غلطی نہیں ہے۔ جس پر جسٹس عظمت سعید بولے وکیل صاحب غلطی ایک دو کنال کی ہوتی ہے۔ ہزاروں ایکڑ کی نہیں۔
عدالت نے سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی اور آئندہ سماعت پر تینوں مقامات کے لیے الگ الگ پیشکش بھجوانے کی ہدایت کی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف کیسز کی سماعت جاری ہے جن میں کراچی، اسلام آباد اور مری کے قریب سینکڑوں ایکڑ سرکاری زمین پر قبضہ کیا گیا اور اب اس معاملے پر عمل درآمد کے حوالے سے قائم بینچ کی کارروائی جاری ہے۔