ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے وزیر دفاع کو احکامات جاری کیے ہیں کہ ایران کی جانب سے میزائل کےتجربات کے بعد امریکہ کی طرف سے نئی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی کے جواب کے طور پر ایران کے بیلسٹک میزائل پرگرام کو وسعت دی جائے۔
ایک ٹوئیٹ میں، جمعرات کو روحانی نے کہا کہ اس نئے پروگرام کا مقصد ایران کی میزائل کی صلاحیت بڑھانا ہے، اگر، بقول اُن کے،امریکہ ’ایران کے دفاع کے حق کی راہ میں اپنی بلاجواز مداخلت جاری رکھتا ہے‘۔
روحانی کے بیان کے جواب میں، ایک اعلیٰ امریکی اہل کار نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ امریکہ ایک طویل عرصے سے ایران کے میزائل پروگرام کے خطرے کے انسداد کے سلسلے میں اقدام کرتا رہا ہے، اور وہ ایسا ہی کرتا رہے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس ضمن میں خطے میں امریکی اتحادیوں کے ساتھ قریبی رابطہ قائم کرنا شامل ہے، تاکہ وہ اِن خدشات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا دفاع مضبوط کر سکیں۔
’دِی وال اسٹریٹ جرنل‘ جس نے سب سے پہلے امریکی تعزیرات عائد کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، کہا ہے کہ اِن کا باضابطہ طور پر اِسی ہفتے اعلان کیا جا سکتا ہے اور اس میں ایران، ہانگ کانگ اور متحدہ عرب امارات کے تقریباً 12افراد اور کمپنیاں شامل ہیں۔
اخبار نے کہا ہے کہ تعزیرات کے تحت امریکی بینکوں پر زور دیا جائے گا کہ وہ فہرست میں شامل اور امریکہ میں موجود افراد اور اداروں کے اثاثہ جات کو منجمد کریں، اور اُن کے ساتھ کاروبار نہ کریں۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان، حسین جابر انصاری نے جمعرات کو مجوزہ تعزیرات کو ’یک طرفہ، من مانی اور ناجائز‘ قرار دیا ہے۔
ایران نے میزائل کا پہلا تجربہ اکتوبر اور نومبر میں کیا۔ امریکہ اور فرانس نے کہا ہے کہ اکتوبر کا تجربہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی ہے جس کی رو سے ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائل تشکیل دینے پر پابندی عائد ہے۔
ایران نے اِن الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پابندی صرف اُن میزائلوں پر ہے جو جوہری ہتھیار لے جانے کی استعداد رکھتے ہوں اور یہ کہ ایران کے میزائلوں میں یہ صلاحیت نہیں ہے۔
امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ میزائل کا مقصد صرف یہ ہے کہ میزائل جوہری ہتھیار کی صلاحیت رکھتا ہو۔