کوئٹہ —
پاکستان کے رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو اب بھی 65 کی ایوان میں سے 47 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے اور وزارتوں سے مستعفی ہونے والے استعفے قبول ہونے کے بعد ہی اپوزیشن میں بیٹھ سکتے ہیں۔
صوبائی مخلو ط حکومت میں شامل پیپلزپارٹی ،آزادارکان اورمسلم لیگ ق کے ارکان اسمبلی کی طر ف سے صوبائی حکومت کی حمایت تر ک کرنے اور صوبائی کابینہ کا اتوار کو ہو نے والے اجلاس کو غیر متوقع طور پر ملتوی کرنے کے بعد صوبائی حکومت کے ترجمان علی مدد جتک نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی ایک یا دو روز میں اپوزیشن ارکان سے مشاورت کے بعد نگران وزیراعلیٰ کے لئے ایسے شخص کا نام پیش کرینگے جس پر سب متفق ہوں ۔
علی مدد جتک کا کہنا تھا کہ اپوزیشن میں جانے والے ارکان اسمبلی کی طر ف سے چالیس ارکان اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ درست نہیں ہے اوراگر وہ اپنی اکثر یت ثابت کر دیں تو ہم سب اُن کی حمایت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومتیں ہیں بر سر اقتدار جماعت کا کو ئی بھی رکن حزب اختلاف میں نہیں بیٹھ سکتا۔ ان کے بقول بلوچستان کی مخلوط حکومت کی حمایت نہ کر نے اور اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کرنے والے ان کے ارکان کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے گی۔
وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کی مخلوط حکومت کو اڑھائی ماہ قبل وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے میں ناکام ہونے پر بر طر ف کر دیا تھا اور صوبے میں دوماہ کے لئے گورنر راج نافذ کردیا تھا۔
14 مارچ کو گورنر راج ختم ہونے کے بعد وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت بحال ہو گئی تھی اور تقر یباً پینتالیس روز تک صوبے سے باہر رہنے والے اسلم رئیسانی اتوار کو کوئٹہ پہنچے جہاں عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی نے ان سے ملاقات کی اور اپنی حمایت کا یقین دلایا ۔
صوبائی مخلو ط حکومت میں شامل پیپلزپارٹی ،آزادارکان اورمسلم لیگ ق کے ارکان اسمبلی کی طر ف سے صوبائی حکومت کی حمایت تر ک کرنے اور صوبائی کابینہ کا اتوار کو ہو نے والے اجلاس کو غیر متوقع طور پر ملتوی کرنے کے بعد صوبائی حکومت کے ترجمان علی مدد جتک نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی ایک یا دو روز میں اپوزیشن ارکان سے مشاورت کے بعد نگران وزیراعلیٰ کے لئے ایسے شخص کا نام پیش کرینگے جس پر سب متفق ہوں ۔
علی مدد جتک کا کہنا تھا کہ اپوزیشن میں جانے والے ارکان اسمبلی کی طر ف سے چالیس ارکان اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ درست نہیں ہے اوراگر وہ اپنی اکثر یت ثابت کر دیں تو ہم سب اُن کی حمایت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومتیں ہیں بر سر اقتدار جماعت کا کو ئی بھی رکن حزب اختلاف میں نہیں بیٹھ سکتا۔ ان کے بقول بلوچستان کی مخلوط حکومت کی حمایت نہ کر نے اور اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کرنے والے ان کے ارکان کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے گی۔
وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کی مخلوط حکومت کو اڑھائی ماہ قبل وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے میں ناکام ہونے پر بر طر ف کر دیا تھا اور صوبے میں دوماہ کے لئے گورنر راج نافذ کردیا تھا۔
14 مارچ کو گورنر راج ختم ہونے کے بعد وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت بحال ہو گئی تھی اور تقر یباً پینتالیس روز تک صوبے سے باہر رہنے والے اسلم رئیسانی اتوار کو کوئٹہ پہنچے جہاں عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی نے ان سے ملاقات کی اور اپنی حمایت کا یقین دلایا ۔